’پارلیمانی سال کے دوران سینیٹ میں اراکین کی حاضری 100 فیصد نہیں رہی‘
اسلام آباد: ایوان بالا (سینیٹ) کی جانب سے جاری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 11 مارچ کو ختم ہونے والے پارلیمانی سال کے پورے عرصے میں سینیٹ میں اراکین کی حاضری 100 فیصد نہیں رہی اور کم سے کم حاضری 25 اراکین تک محدود ہوگئی۔
سینیٹ میں قائد ایوان سید شبلی فراز کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ رپورٹ جاری کی گئی، جس کے مطابق نئے پارلیمانی سال کے افتتاحی سیشن میں جہاں نصف اراکین نے حلف لیا تو وہیں اس وقت بھی کل 104 سینیٹرز میں سے 103 کی جانب سے شرکت کی گئی۔
اس کے علاوہ ایوان میں 20 جولائی 2018 کو کم از کم 25 اراکین کی حاضری ریکارڈ کی گئی جبکہ پورے سال اوسطاً حاضری 64.46 فیصد رہی، جس کا مطلب یہ ہےکہ کل اراکین کا ایک تہائی حصہ سینیٹ سیشن میں غیر حاضر رہا۔
مزید پڑھیں: سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے پاس مجھے طلب کرنے کا اختیار نہیں، وفاقی وزیر
ایوان میں سینیٹرز کو ان کے پوچھے گئے سوالات کے 18 فیصد سے بھی کم جواب ملے، کل 3 ہزار 6 سو 81 سوالات موصول ہوئی، جس میں سے 3 ہزار 301 کی اجازت دی گئی، اس کے علاوہ 2 ہزار 6سو16 منظور شدہ سوالات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا گیا۔
تاہم سینیٹر شبلی فراز نے اس کمی کو منتقلی سے منسوب کیا اور کہا کہ یہ ہر 5 سال بعد ہوتی ہے، پارلیمانی سال 19-2018 کے دوران سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں میں انتخابات کے دوران جمہوری منتقلی ہوئی تاہم اس دوران سینیٹ اس اکثریت کو پورا نہیں کرسکا جو گزشتہ مالی سالوں کے درمیان رہی۔
ایک سوال کے جواب مین سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ سالانہ بجٹ کی منظوری میں سینیٹ کا بھی کردار ہونا چاہیے، ’ہم 3 برسوں سے اس کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں اور اس معاملے پر بحث کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، یہ جدوجہد جاری رہے گی اور اس کی کامیابی کے لیے پرامید ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’آمر کے دور میں بھی کبھی سینیٹ رولنگ پر سوال نہیں اٹھایا گیا‘
انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے اختیارات اور پلی بارگین ڈیل کی دفعات میں ترمیم کے لیے احتساب قانون پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت سیاسی اثر و رسوخ سے بالاتر ایک آزاد انسداد بدعنوانی ادارہ چاہتی ہے کیونکہ بدقسمی سے ماضی میں نیب کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس موقع پر سینیٹر شبلی فراز نے تسلیم کیا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کچھ معاملات خراب ہیں، ساتھ ہی انہوں نے بڑے اپوزیشن لیڈرز کے خلاف کرپشن کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ یہ صورتحال معمول کے مطابق نہیں اور رواں سال کے دوران اپوزیشن کی جانب سے 39 واک آؤٹ کیے جاچکے ہیں‘۔
یہ خبر 20 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی