پاکستان

نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملوں میں 4 پاکستانی بھی زخمی

زخمیوں کو گولیوں سے زخم آئے جن کی حالت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، ترجمان دفتر خارجہ
|

پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر حملوں میں زخمی ہونے والوں میں 4 پاکستانی بھی شامل ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے واقعے میں چار پاکستانی بھی زخمی ہوئے ہیں جنہیں گولیوں سے زخم آئے۔

انہوں نے کہا کہ زخمیوں کی حالت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ حملوں کے بعد سے 5 پاکستانی لاپتہ بھی ہیں جن پاکستانی ہائی کمیشن تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔

قبل ازیں نیوزی لینڈ میں پاکستانی ڈپٹی ہائی کمشنر سعید معظم شاہ نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گرد حملے کے بعد 5 پاکستانیوں سے رابطہ نہیں ہو پارہا۔

انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ حکومت نے صرف جاں بحق افراد کی تعداد بتائی ہے، ان کے نام اور شہریت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ دہشتگردی، اسلامو فوبیا کا شاخسانہ ہے، وزیراعظم عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ پانچ افراد جاں بحق یا زخمی ہونے والوں میں شامل ہیں یا نہیں۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں نماز جمعہ سے قبل مسلح حملوں میں 49 افراد جاں بحق جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

دونوں حملے ملک کے تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ میں ہوئے جس کے بعد پولیس نے ایک خاتون سمیت 4 حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا۔

حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں بم بھی نصب تھے۔

نیوزی لینڈ کی پولیس کے سربراہ مائیک بش نے بتایا کہ ڈینز ایونیو میں واقع مسجد النور میں 41 افراد، لین ووڈ مسجد میں7 افراد جبکہ ہسپتال منتقل کیے گئے زخمیوں میں سے ایک شخص کی موت کی تصدیق ہوگئی ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈرن نے حملے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ: مساجد میں دہشتگردی، حملہ آور کی سفاکیت کا مکمل احوال

انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں اس طرح کی انتہا پسندی کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

دوسری جانب آسٹریلین وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے واقعے بعد یہ بیان جاری کیا کہ نیوزی لینڈ میں گرفتار افراد میں آسٹریلیا کے شہری بھی شامل ہیں۔

اسکاٹ موریسن نے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا تاہم یہ واضح نہ ہو سکا کہ 4 میں سے کتنے حملہ آور آسٹریلیا سے تھے۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم نے مزید بتایا کہ گرفتار افراد کا تعلق دائیں بازو کے انتہا پسند طبقے سے ہے۔