پاکستان

سندھ کے ڈاکٹروں کی تنخواہ پنجاب کے برابر کرنے کی منظوری

صوبائی کابینہ کے اجلاس میں چلڈرن ہسپتال نیو کراچی کو ڈیڑھ برس بعد فنڈز جاری کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔
|

سندھ کی کابینہ میں کراچی میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی منظوری کے علاوہ اہم فیصلے کیے اور صوبے میں ڈاکٹروں کی تنخواہوں کو پنجاب کے برابر کرنے کی منظوری دی گئی جس کا اطلاق رواں ماہ سے ہی ہوگا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں سندھ سیکریٹریٹ کی نیو بلڈنگ میں صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں چیف سیکریٹری سندھ، تمام صوبائی وزرا، مشیر، معاونین خصوصی اور متعلقہ افسران نے شرکت کی۔

سندھ کابینہ کے اجلاس گزشتہ کابینہ اجلاس کے منٹس کی منظوری دے دی گئی، کابینہ نے ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز اور آکیوپیشنل سیفٹی اور ہیلتھ کونسل کے قیام کی منظوری دے دی۔

وزیراعلیٰ سندھ کے میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں اروڑ یونیورسٹی آف آرٹ، آرکیٹیکچر، ڈیزائن اور ہیریٹیج سکھر بل 2008 کو منظور کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی بھیجنے کی ہدایت کی گئی جس کے حوالے سے مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ ایک شان دار ادارہ ہوگا اور اس کی فیکلٹی کے لیے بہترین ماہرین منتخب کیے جائیں گے۔

سندھ کابینہ کے اجلاس میں سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی ایکٹ 2009 میں ترمیم کی گئی یہ ترمیم سیکشن 5 (2) 2010 میں کی گئی ہے، سیکریٹری اسکولز اور سیکریٹری کالجز کو اسٹیوٹا بورڈ کا ممبر مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ

صوبائی کابینہ نے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی) کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی اصولی منظوری دی اور اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم کردی گئی جو بل کو درست کر کے اسمبلی بھیجے گی، کمیٹی میں وزیر بلدیات، وزیر صحت اور میئر کراچی کو نامزد کیا گیا ہے۔

سندھ کابینہ نے فیکلٹی کو سینڈیکیٹ نامزد کرنے کی منظوری دے دی جبکہ سینڈیکیٹ، بورڈز آف گورنرز کی تقرری کا اختیار وزیراعلیٰ سندھ کو دے دیا گیا اور کراچی یونیورسٹی کے ناصر سلمان کو سینڈیکیٹ کا ممبر مقرر کرنے کی بھی منظوری دے دی۔

اعلامیے کے مطابق سندھ گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال نیو کراچی کو بجٹ جاری کرنے پر غور کیا گیا جہاں بتایا گیا کہ ہسپتال کو پوورٹی ایجوکیشن انیشیٹو (پی ای آئی) چلا رہا اور 439.8 ملین روپے بھی جاری کیے گئے ہیں، آڈٹ کے کچھ اعتراضات تھے، جس کے باعث گذشتہ ڈیڑھ سال سے ہسپتال کو فنڈز جاری نہیں ہوئے لیکن اب آڈٹ اعتراضات ختم ہوگئے ہیں جس کے بعد سندھ حکومت نے گزشتہ ڈیڑھ برس سے رکے ہوئے فنڈز جاری کرنے کی منظوری دے دی۔

ڈاکٹروں کی تنخواہ پنجاب کے برابر کرنے کی منظوری

صوبائی کابینہ کے اجلاس میں سندھ کے ڈاکٹروں کی تنخواہ پنجاب کے ڈاکٹروں کے برابر کرنے پر، سروس اسٹرکچر تھری ٹائرز فارمولا کرنے سمیت تمام الائونسز دیگر صوبوں خاص طور پر پنجاب کے برابر کرنے پر غور کیا گیا۔

مزید پڑھیں:سندھ میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کا چوتھا روز، مریضوں کے اہلِ خانہ مشتعل

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کے لیے 10 ہزار روپے ماہوار پوسٹ گریجویٹ کی مد میں اضافہ کیا گیا اور ہاؤس جاب افسران کواضافی 15 ہزار روپے فی ماہ دیے جائیں گے۔

اعلامیے کے مطابق محکمہ صحت تمام ڈاکٹروں، گریڈ 17 سے گریڈ 20 تک کی تنخواہ کے ڈھانچے پر نظر ثانی کرے گا اور کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ ان تمام الائونسز اور تنخواہوں کا جائزہ لینے کے بعد 5.6 بلین روپے سالانہ خزانے پربوجھ پڑے ہوگا۔

ڈاکٹروں کی تنخواہ کے معاملے پر صوبائی کابینہ کے بیشتر اراکین نے ڈاکٹروں کی تنخواہ بڑھانے کو کارکردگی یا اچھی کارکردگی سے منسوب کرنے کی تجویز دی۔

کابینہ اجلاس میں اراکین کی تجاویز اور تبادلہ خیال کے بعد ڈاکٹروں کے لیے تنخواہ کا نیا پیکج پنجاب کے ڈاکٹروں کے برابر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب قانون سازی ہوگی جس کے تحت تنخواہ میں اضافہ صحت، تعلیم اور دیگر اداروں میں کارکردگی کی بنیاد پر ہوگا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مزید ڈاکٹروں کو بھرتی کرنے کی ہدایت دی اور بھرتی ہونے والے نئے ڈاکٹروں کو مخصوص ہسپتالوں میں تعینات کیا جائے گا جہاں سے ان کا ٹرانسفر نہیں ہو سکے گا۔

خیال رہے کہ ڈاکٹروں کی تنخواہ کے نئے پیکیج کا اطلاق رواں ماہ (فروری) سے ہی ہوگا۔

کابینہ کے اجلاس میں محکمہ صحت سندھ اور پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشیٹو (پی پی ایچ آئی) کے درمیان تجدید شدہ یادداشت پر تبادلہ خیال کیا گیا اور بتایا گیا کہ پی پی ایچ آئی انتظامیہ نے اگلے پانچ برسوں کے لیے توسیع کی درخواست کی ہے یوں یہ توسیع 6 دسمبر 2018 سے دسمبر 2023 تک ہوگی۔

اجلاس میں تھرڈ پارٹی کے ذریعے نگرانی کے فیصلے کے ساتھ سندھ حکومت نے پی پی ایچ آئی کا معاہدہ مزید 5 برسوں کے لیے بڑھانے کی منظوری دی۔

لینڈ ریونیو ایکٹ میں ترمیم کی منظوری

سندھ کابینہ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے مختلف کمیٹیوں کی روشنی میں لینڈ ریونیو ایکٹ 1976 میں چند ترامیم پر بھی غورکیا گیا جس میں سیکشن 52 لینڈ اکیوزیشن ایکٹ 1894 کے سیکشن 3 اور سیکشن 23 (2)، اور سیکشن 3 (سی) شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:صوبے کے ایک لاکھ 35ہزار اساتذہ ریاضی، سائنس نہیں پڑھا سکتے،وزیرتعلیم

لینڈ ریونیو ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دیتے ہوئے صوبائی اسمبلی کو ارسال کردیا گیا۔

کے فور منصوبہ

سندھ کابینہ کے اجلاس میں کے فور منصوبے کے ڈیزائن پر نظرثانی کے لیے نیسپاک کی خدمات حاصل کرنے پربھی غور کیا گیا۔

کے فور منصوبے پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ اور وزیر بلدیات سعید غنی نے بتایا کہ کے فورمنصوبہ 25.551 بلین روپے کا تھا اور اس کے 50 فیصد فنڈز سندھ اور 50 فیصد فنڈز وفاقی حکومت کو دینے تھے لیکن کے فور کے مزید کام سامنے آئے ہیں جن میں 50 میگاواٹ کا پاور پلانٹ اور کچھ روٹس میں تبدیلیاں وغیرہ شامل ہیں۔

چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت بھی چاہتی ہے کہ نیسپاک کے فور منصوبے کے ڈیزائن پر نظرثانی کرے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ منصوبہ جب بنایا گیا تھا تو 45 ارب روپے کا تھا پھر اس کو کم کر کے 25 ارب روپے کردیا گیاتھا۔

انہوں نے بتایا کہ حیسکو اس منصوبے کو بجلی فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں، اسی لیے کے فور منصوبہ میں پاور پراجیکٹ بھی شامل کررہے ہیں۔

سندھ کابینہ نے کے فور پراجیکٹ کے لیے نیسپاک کی خدمات حاصل کرنے کی منظوری دے جس کے بعد وزیراعلیٰ نے کہا کہ ٹی او آرز جلد بنا کر منصوبے پر کام شروع کروایا جائے۔

کراچی کی ماسٹر پلان پر بحالی

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ’کراچی کو اصل ماسٹر پلان کے تحت بحال کرنے‘ پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کے تحت تمام تبدیل شدہ پلاٹس پر تمام عمارتیں ہٹائی جائیں گی اور پارکس، کھیلوں کے میدان وغیرہ کو بحال کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کا کراچی میں سیاحتی مقاصد کیلئے ٹرام چلانے کا حکم

کابینہ نے تفصیلی غور کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں وزیر بلدیات، وزیر ٹرانسپورٹ اور وزیر ثقافت شامل ہیں، یہ کمیٹی معاملے کا جائزہ لے گی اور اپنی سفارشات دے گی۔

جونیئر اسکول ٹیچرز کی بھرتیوں کا معاملہ

سندھ کابینہ کے اجلاس میں جونیئر اسکول ٹیچرز پی بی ایس 14 اور ارلی چائلڈ ہوڈ ٹیچرز پی بی ایس 15 کی بھرتیوں کے معیار پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور اسکول ایجوکیشن کی جانب سے دی گئی درخواست منظور کی گئی جس میں نئی بھرتیوں کے لیے امیدواروں کے اہلیت کے لیے نمبر 60 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد کیے گئے تھے۔

اجلاس میں 2017 کی بھرتی پالیسی پر بھی نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ اسکولوں کو بہتر انداز میں فعال کیا جائے گا