گیس کمپنیاں سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں سے پریشان
اسلام آباد: گیس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے نجی سرمایہ کار، مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی اضافی پروسیسنگ گنجائش کا استعمال کرنے اور نئے ٹرمینلز کے قیام میں آنے والی رکاوٹوں کے سبب پریشان ہیں جبکہ صارفین اور قومی خزانے سے ایل این جی کی ری گیسیفکیشن کے لیے دگنی ادائیگی کی جارہی ہے۔
تقریباً 10 بڑی کمپنیوں یا ان کی ذیلی کمپنیوں نے حکومت سے شکوہ کیا ہے کہ ان کی جانب سے سسٹم میں مسابقتی نرخوں پر گیس فراہم کرنے کی کوششوں میں شدید رکاوٹیں حائل ہیں جبکہ کچھ تو اپنے سرمایہ کاری پلان کو جاری رکھنے سے تنگ آچکے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان گیس پورٹ لمیٹڈ کی جانب سے 42 پیسے مقر کرنے کے باوجود حکومت ٹرمینل آپریٹرز کو ایل این جی پروسیسنگ کی مد میں 70 سے 80 پیسے فی یونٹ ادا کررہی ہے اور گنجائش سے کم استعمال کے باعث 7 ارب روپے کا اضافی بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں گیس بحران کی وجوہات
واضح رہے کہ پہلے سے موجود 2 ٹرمینلز کو ری گیسیفکیشن کی صلاحیت کے لیے مقرر کردہ نرخوں پر ادائیگی کی جاتی ہے لیکن گنجائش میں کمی کے باعث ری گیسیفکیشن کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
خیال رہے کہ اینگرو اور پاکستان گیس سپورٹ، دونوں ٹرمینلز کی کل گنجائش تقریباً ایک ہزار 350 ملین کیوبک فٹ یومیہ ہے لیکن سسٹم میں طلب زیادہ ہونے کے باوجود کبھی کبھار ہی یہ ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی سے کچھ زیادہ گیس پروسیس کی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک سرمایہ کار کا کہنا تھا کہ ’صارفین کو شدید کمی کا سامنا ہے، گنجائش موجود ہے، گیس فراہم کرنے والے بہتر مقابلہ بازی کے لیے تیار ہیں اس کے باوجود ہم دگنی قیمت ادا کررہے ہیں، یہ بہت سنگین انتظامی بحران ہے، اس طرح بزنس نہیں کیے جاتے‘۔
مزید پڑھیں: ملک میں گیس کی قلت: ایل این جی کے 2 بحری جہاز پورٹ قاسم پر لنگر انداز
دوسری جانب اس سلسلے میں ایک مقامی کمپنی کی جانب سے شکوہ سامنے آیا کہ 2016 سے لائسنس ہونے اور تمام قانونی تقاضوں اور انتظامی امور کی پابندی کرنے کے باوجود سستے نرخ پر ایل این جی فراہم کرنے کی کوششوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اس حوالے سے پیٹرولیم ڈویژن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ موجودہ ٹرمینلز کی اضافی گنجائش نجی اداروں کے لیے مختص کرنے سے سرکاری گیس کمپنیوں کو مستقبل میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ 13 سو 50 ایم ایم سی ایف سی ڈی کی گنجائش کے مجموعی استعمال کے لیے پائپ لائنز کے نیٹ ورک میں رکاوٹیں موجود ہیں چنانچہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سندھ میں 17 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تنصیب کا کام مکمل نہیں ہوجاتا۔