پاکستان

نیب کا جعلی اکاؤنٹس کیس میں تحقیقات کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ

لائحہ عمل کے تحت ٹیمیں تشکیل دی گئیں جو کراچی اور راولپنڈی میں شواہد کی بنیاد پر بیانات ریکارڈ کریں گی، نیب اعلامیہ

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے جعلی اکاونٹس کیس کا دائرہ کار بڑھانے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ٹیموں کو کراچی بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔

نیب کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق یہ فیصلہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔

چیئرمین نیب کی زیرِ صدارت ہونے والے اس اجلاس میں جعلی اکاونٹس کیس سے متعلق ابتدائی رپورٹ سمیت مختلف مقدمات میں پش رفت کا جائزہ بھی لیا گیا۔

نیب نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں مکمل لائحہ عمل ترتیب دیا گیا اور اسی کے تحت ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور تفتیش کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے ٹیمیں کراچی بھیجنے کا فیصلہ بھی کیا۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری، فریال تالپور کی عدالتی فیصلے کےخلاف نظرثانی اپیل

کراچی کے علاوہ کچھ ٹیمیں نیب ہیڈ کوارٹرز میں ہی شواہد کی بنیاد پر بیانات ریکارڈ کریں گی۔

اجلاس میں چیئرمین نیب نے حکام کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کرنے اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں تمام توانائیاں صرف کرنے کی ہدایت بھی کی۔

اس دوران چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کیس کو قانون کے مطابق ٹھوس شواہد کی بنیاد پر تحقیقات کرکے اس شفافیت سے منطقی انجام تک پہنچانے پر یقین رکھتا ہے۔

مذکورہ اجلاس میں چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل، ڈی جی آپریشن اور ڈی جی نیب راولپنڈی سمیت اعلیٰ عہدیداران نے شرکت کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 3 دن مشاورت کے بعد جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس کو تحقیقات کے لیے نیب راولپنڈی کے دفتر بھیج دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'جعلی اکاؤنٹ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو فیصلہ سمجھ لیا گیا ہے'

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

رواں برس 28 جنوری کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس کیس کے فیصلے کے خلاف سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے نظرثانی اپیل دائر کردی تھی۔