پاکستانی ڈراموں میں ’ریپ، بچوں پر تشدد و ذیاتی اور خواتین کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات دکھانا عام بن چکا ہے۔
اگرچہ ڈراموں میں ایسے موضوعات کا دکھانا حساس موضوعات کو سمجھنے اور ان مسائل پر بات کرنے کے لیے اچھا ہے، تاہم ان موضوعات پر بنائے جانے والے اب تک کے ڈراموں میں متاثرین کو خود پر ملامت کرتے، انہیں کمزور کے طور پر دکھانے سمیت ریپ کے ملزمان کو ایک ہیرو کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔
اور حال ہی میں ریلیز ہونے والے ڈرامے ’چیخ‘ میں بھی یہی کچھ دکھایا گیا ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ ڈرامہ ریٹنگ برقرار رکھنے سمیت لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب جائے گا۔
بگ بینگ انٹرٹینمنٹ کے پروڈیوس کردہ اس ڈرامے کی ہدایات بدر محمود نے دی ہیں اور اس کی کہانی زنبیل عاصم نے لکھی ہے۔’چیخ‘ کی کہانی 2 خاندانوں یعنی یاور (اعجاز اسلم) اور نایاب (اشنیا شاہ) کے گرد گھومتی ہے۔
یاور کے 2 نوجوان بھائی ہوتے ہیں، جن میں سے ایک بیرون ملک رہتا ہے جو منت (صبا قمر) سے شادی کرتا ہے، ان کا چھوٹا بھائی وجیہہ (بلال عباس خان) ہوتا ہے اور ساتھ ہی ان کی ایک بہن حیا (ازیکا ڈینیل) ہوتی ہیں۔
ان کا خاندان نہ صرف امیر ہوتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے قریب بھی ہوتا ہے اور والدین کے نہ ہونے کے بعد بڑے بھائی ہونے کے ناتے یاور اپنے خاندان کی ہر بات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
ادھر نایاب اپنے والد، سوتلی والدہ اور 2 سوتیلی بہنوں کے ساتھ رہتی ہیں اور ان کا خاندان یاور کے خاندان کی طرح امیر نہیں ہوتا۔
ڈرامے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں نایاب، حیا اور منت نہ صرف دونوں خاندانوں کی نوجوان خواتین ہوتی ہیں بلکہ وہ اچھی دوست بھی ہوتی ہیں۔
نایاب وجیہہ کو پسند کرتی ہیں اور حیا چاہتی ہیں کہ نایاب ان کی بھابھی بنیں، تاہم نایاب کی سوتیلی ماں ان کی شادی کسی اور ان سے عمر میں بڑے شخص سے شادی کرانے کی تیاری کرتی ہیں، کیوں کہ انہوں نے انہیں حق مہر کے وقت 20 لاکھ روپے نقد دینے کا وعدہ کیا ہوتا ہے۔
اسی صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی 2 سہیلیوں کو بتاتی ہیں کہ وہ مرنا چاہتی ہیں، ساتھ ہی ان سے کہتی ہیں کہ وہ یہ بات منت اور حیا کو نہیں بتائیں گی۔
اتفاق سے حیا کی منگنی کے موقع پر نایاب بالکونی سے نیچے گر جاتی ہیں اور وہ شدید زخمی بن جاتی ہیں۔
اس حادثے کے بعد زیادہ تر لوگ یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی، کیوں کہ وہ اپنی زندگی اور شادی کے فیصلے سے خوش نہیں تھیں۔
ڈاکٹرز چیک اپ کے بعد کہتے ہیں کہ اس کا ریپ کرنے کے بعد اسے بالکونی سے نیچے گرایا گیا۔
انسپکٹر عامر خان (نیر اعجاز) تحقیق کے انچارج ہوتے ہیں۔
جب تمام افراد ہسپتال میں موجود ہوتے ہیں، تب یاور مشکوک سرگرمیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ جائے وقوع کو دھونے سمیت گھر کو صاف کرتے ہیں۔
جب نایاب کے والد واقعے کا مقدمہ یاور کے خاندان پر درج کرنے کا کہتے ہیں تب یاور فوری طور پر بولتے ہیں اور پیش کش کرتے ہیں کہ وہ ہسپتال کے تمام اخراجات ادا کرنے کو تیار ہیں۔
وہ شاطر ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نایاب ان کی چھوٹی بہن کی طرح تھیں اور وجیہہ سے اس کی شادی کرانا چاہتا تھا۔
جب نایاب کے والد اس معاملے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، تب نایاب کی سوتیلی ماں ایک بہت بڑا ڈرامہ کرتی ہیں اور جذباتی اور دکھی انداز کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
نایاب کو جب کافی وقت کے بعد ہوش آتا ہے تو وہ صرف یہی کہتی ہیں کہ ’راجا بھیڑیا ہے‘ اور اس کے بعد وہ مر جاتی ہیں۔