پاکستان

منی لانڈرنگ کو ناقابل ضمانت جرم بنائے جانے کا امکان

حکومت کی جانب سے انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 اور وفاقی تحقیقاتی ایکٹ 1974 میں اہم ترامیم متعارف کرائی جائیں گی، رپورٹ

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے فنانس سپلیمنٹری (دوسرا ترمیمی) بل 2019 کے طور پر انسداد منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) ایکٹ 2010 اور وفاقی تحقیقاتی ایکٹ (ایف آئی اے) 1974 میں اہم ترامیم آج متعارف کرائے جانے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اسد عمر وفاقی کابینہ کو ضمنی فنانس بل پر بریفنگ دیں گے، جس میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں، زراعت، صنعت، ہاؤسنگ، اسٹاک مارکیٹ اور برآمدات سمیت معیشت کے مختلف شعبوں کے لیے اصلاحات پیکجز کی وجوہات اور اہداف سے متعلق واضح کریں گے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا منی لانڈرنگ روکنے کیلئے قوانین میں ترمیم کا فیصلہ

ذرائع کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ سے متعلق مسائل حل کرنے کے لیے قوانین اور قواعد و ضوابط میں مخلتف تبدیلیوں کا معاملہ کئی ماہ سے زیر بحث رہا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ معاملہ مکمل نہیں ہوسکا، جس کے بعد اب حکومت نے منی بل 19-2018 کی شکل میں ایک آسان قانونی حل تلاش کیا ہے۔

اس سلسلے میں ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور تحقیقات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے زیادہ تر تبدیلی 1974 کے ایف آئی اے، 2010 کے اے ایم ایل ایکٹ اور متعلقہ ٹیکس قوانین میں کی جائیں گی۔

ان ترامیم کو وزیر خزانہ کی زیر صدارت کمیٹی کی جانب سے حتمی شکل دی گئی اور اس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق معاملات پر کام کرنے والی تمام متعلقہ ایجنسیوں کا حوالہ دیا گیا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ’کافی کام‘ نہ کرنے پر گزشتہ برس پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ ایک جرم تصور کیا جائے گا جس کی ضمانت نہیں ہوگی جبکہ قانون کی مختلف شقوں کے تحت یہ قابل سزا جرم ہوگا، اس کے علاوہ نئے منی بل کے تحت جو فنڈز کی غیر قانونی منتقلی میں ملوث ہوگا اسے 3 سے 10 سال کی سزا بھی ہوگی۔

خیال رہے کہ موجودہ قوانین میں قید کی شق میں زیادہ سے زیادہ سزا 2 سال تک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کے خلاف تاریخ کی بڑی کارروائی کرنے جارہے ہیں، وزیر اعظم

ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ، ہنڈی یا حوالہ کے کاروبار میں ملوث ایکسچینج کمپنی کے ڈائریکٹر کے لیے جرمانہ بھی 50 لاکھ روپے سے 5 کروڑ روپے بڑھایا جائے گا، اسی طرح ایسے افراد کی جائیدادوں کو موجودہ قوانین کے تحت 90 روز کے بجائے 6 ماہ کے لیے کیس پراپرٹی سے منسلک کردیا جائے گا۔

اسی طرح مجوزہ منی بل میں ایک نئے سیکشن میں آئین کے آرٹیکل 247 کی دفعات کے مطابق ایف آئی اے کے دائرہ کار کو پورے پاکستان تک بڑھایا جائے گا، جس میں خیبرپختونخوا میں حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ملک میں اور بیرون ملک میں غیر ملکی زر مبادلہ اور مقامی کرنسی کی نقل و حمل محدود کرنے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اختیارات کو بہتر کرنے کے لیے 1947 کے فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکشن میں بھی کچھ تبدیلیاں کی جائیں گی۔