پاکستان

ساہیوال واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی، وزیر اعظم

واقعے پر لوگوں کا غم و غصہ جائز اور قابل فہم ہے، قطر سے واپسی پر پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا، عمران خان

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ساہیوال واقعے پر لوگوں کا غم و غصہ جائز اور قابل فہم ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ دورہ قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ میں پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس میں اصلاحات کے عمل کا آغاز کروں گا‘۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان، قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کی دعوت پر قطر کے 2 روزہ دورے پر روانہ ہوگئے۔

مزید پڑھیں: ذیشان دہشت گرد نہیں تھا، لواحقین کا وزیرقانون کے بیان پر احتجاج

اس دورے کے دوران عمران خان کی قطری امیر اور وزیر اعظم سے بھی ملاقات متوقع ہے، جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوگا جبکہ مزدوروں کو قطر بھیجنے کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ 'ان بچوں کو دیکھ کر ابھی تک صدمے میں ہوں، جنہوں نے اپنے سامنے والدین کو قتل ہوتے دیکھا اور وہ صدمے کا سامنا کررہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنے بچوں کے بارے میں ایسی صدمہ انگیز صورتحال کے تصور ہی سے کوئی بھی والدین پریشان ہوجائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے ایک اور ٹوئٹ کیا تھا کہ سی ٹی ڈی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا لیکن قانون کے سامنے سب جوابدہ ہیں

واقعے کی تفصیل

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں گزشتہ روز وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔