غذائی کفالت کا منصوبہ
ہندوستان میں منموہن سنگھ کی یونائیٹڈ پروگریسو الائنس حکومت نے اگلے سال کے عام انتخابات کے پیش نظر اپنے امیج کو غریب پرور بنانے کیلئے فوڈ سیکورٹی بل (غذائی کفالت کا بل) پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا تہیّہ کر لیا تھا- لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی تنقید کے پیش نظر وہ بل تو نہ پیش کرسکی البتہ ایک آرڈیننس کے ذریعہ اس پروگرام پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے-
ہندوستان میں جہاں ایک چوتھائی آبادی غربت کا شکار ہے، اس پروگرام کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا- اس آرڈیننس کے مطابق ہندوستان کی تین چوتھائی آبادی کو 62 ملین ٹن چاول، گیہوں اور دیگر سستا اناج حکومت کی جانب سے مقررکردہ انتہائی کم امدادی (سبسڈائزڈ) قیمتوں پر فراہم کیا جائیگا-
اس پروگرام کے تحت تقریباً تین چوتھائی دیہی آبادی اور نصف شہری آبادی کو ہر مہینہ پانچ کلو چاول تین روپیہ فی کلو، گیہوں دو روپیہ فی کلو اور دیگر سستا اناج ایک روپیہ فی کلو کی شرح پر فراہم کیا جائیگا-
اس کے علاوہ حاملہ عورتوں اور اپنے بچوں کودودھ پلانے والی عورتوں کو ہر ماہ چھ ہزار روپیہ کی مدد دی جائیگی- نیز چھ مہینہ سے چودہ سال تک کی عمر تک کے بچوں کو ان کے گھروں میں تازہ پکا ہوا کھانا ملا کریگا جہاں ایک سروے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے چالیس فی صد بچوں کا وزن اوسط سے کم ہے-
من موہن سنگھ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی کا پیش کردہ یہ پروگرام، دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہوگا جس سے ملک کی ستر فیصد آبادی کو فائدہ پہنچےگا-
اندازہ ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کے نتیجے میں حکومت کو ہر سال 25. 1 ٹریلین روپیہ کے بھاری مصارف عائد ہونگے اور بجٹ خسارہ بڑھ جائیگا-
اس منصوبے پرعمل درآمد کس طرح ہو گا اور اسے کتنے عرصے تک جاری رکھا جا سکے گا، اس پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے- فیڈریشن آف انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اے-دیدار سنگھ، اس منصوبے کو قبل از وقت قرار دیتے ہیں-
لیکن حکومت کی اس معاملے میں سوچ کیا ہے؟ ہندوستان میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ایس ڈی) کئی دہائیوں سے جاری ہے اور حکومت اسی نظام کے تحت موجودہ منصوبے پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے- گرچہ اس نظام کو کئی لحاظ سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے-
کہا جاتا ہے کہ حکومت سیاسی دباؤ کے تحت کاشتکاروں کو گیہوں اور چاول پر سبسڈی دیتی آئی ہے- چنانچہ گیہوں اور چاول کی کاشت کرنے والے کسان عالمی اور ملکی سطح پر اسکی طلب سے قطع نظر اس کی کاشت کرتے ہیں-
نتیجہ یہ ہے کہ سرکاری گوداموں کے باہر اناج کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جن کے بارش کے موسم میں گلنے سڑنے کا اندیشہ رہتا ہے- چنانچہ حکومت کا اندازہ ہے کہ اناج کی رسد فی الحال اس کیلئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک لحاظ سے اسے ایک نعمت ہی قرار دیا جا سکتا ہے-
غذائی کفالت کے اس منصوبے پر ایک تنقید یہ بھی کی جا رہی ہے کہ اس منصوبے میں اناج کی فراہمی پر مرکزی توجہ دی گئی ہے جبکہ ہندوستان کی خاصی بڑی آبادی کی روز مرّہ کی غذا میں دودھ اور اس کی مصنوعات، گوشت، مچھلی اور دالیں خاصی بڑی مقدار میں شامل ہیں-
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جنوب کی ریاستوں کو اس منصوبے سے کوئی خاص فائدہ پہنچنے والا نہیں کیونکہ وہاں کی حکومتیں غریبوں کو یا تو چاول بالکل مفت فراہم کرتی ہیں یا صرف ایک روپیہ فی کلو گرام کی شرح سے- خاص طور سے تامل ناڈو کی چیف منسٹر اس منصوبے کی سخت نقاّد ہیں- ان کی ریاست میں 2011 سے غریبوں کوچاول مفت فراہم کیا جا رہا ہے- چنانچہ وہ اس منصوبے کو محض غریبوں کو رجھانے کی ایک چال قرار دیتی ہیں-
ان کا کہنا ہے کہ سماجی بہبود کے پروگرام صوبائی حکومتوں کی ذمّہ داری ہے اور مرکزی حکومت کی اس میں دخل اندازی نامناسب ہے-
پاکستان میں جہاں تازہ بجٹ اورآئی ایم ایف سے لی جانے والی امداد کے پیش نظر مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے، حکومت کی جانب سے اس قسم کے بڑے منصوبوں کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی نواز حکومت کی توجہ اس جانب نظر آتی ہے-
سوائے اس کے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو (جس کا نام بھی تبدیل کر دیا گیا ہے) جاری رکھا گیا ہے اور ماہانہ امددی رقم کو ہزار روپیہ سے بڑھا کر بارہ سو روپیہ کر دیا گیا ہے لیکن جس تیزی سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے یہ اضافہ ناکافی ہے اور نہ ہی اس منصوبے کا دائرہ عمل اتنا وسیع ہے-
جس مضمون سے اس آرٹیکل کے لکھنے میں مدد لی گئی؛
سبسڈائزڈ گرینز فار دی انڈین پور -- آنند کمار -- ڈان اکنامک اینڈ بزنس ریویو : 14 - 8 جولائی 2013.
لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔