فیس کم کرنے کے عدالتی حکم کے بعد سہولیات کم کرنے والے اسکولوں کی رپورٹ طلب
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیس کم کرنے کے فیصلے کے بعد نجی اسکولوں کی جانب سے اپنی سہولیات کم کرنے کے معاملات سامنے آنے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
عدالت نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ نجی اسکولوں کی جانب سے رد عمل کے نتیجے میں سامنے آنے والے اقدامات کی رپورٹ مرتب کرکے پیش کرے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پرائیویٹ اسکولوں میں اضافی فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ نجی اسکولوں نے دسمبر میں فیس کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کے بعد اسکولوں میں سہولیات میں کمی کرنا شروع کردی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مختلف اسکولوں کی انتظامیہ نے کچھ اساتذہ کو بھی ملازمت سے فارغ کردیا ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا بڑے نجی اسکولوں کو فیس 20 فیصد کم کرنے کا حکم
اس موقع پر چیف جسٹس نے سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ عدالتی حکم پر ردِ عمل کے طور پر اقدامات اٹھانے والے اسکولوں کی رپورٹ مرتب کرکے عدالت میں پیش کریں۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکولوں نے اپنے بچوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرنا شروع کردیا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے اپنے بچوں کے ساتھ بھی اسکول میں برا برتاؤ کیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اسکولوں کی جانب سے یہ ردِ عمل فیسوں میں کٹوتی کے فیصلے کے بعد سامنے آئے ہیں، یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم کی عزت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کو گرمیوں کی تعطیلات کی فیس لینے سے روک دیا
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 85، 85 لاکھ ڈائریکٹرز کو دیتے ہیں۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹری عبدالرحیم نے عدالت کو چند ایسے اقدامات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک اسکول نے کہا ہے کہ ہم ایک ہزار روپے فیس کم کردیں گے لیکن اسکول میں قرآن شریف کی تعلیم بند کردی جائے گی جبکہ ایک اور اسکول نے والدین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو 'کو ایجوکیشن' اسکول میں پڑھالیں۔
سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد کے ایک اسکول نے والدین کو نوٹس جاری کیا اور انہیں کہا کہ 'سپریم کورٹ کے منصفانہ فیصلے کے بعد اسکول انتظامیہ معیار کم کرنے پر مجبور ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے مذکورہ اسکول کے مالک کو عدالت میں طلب کیا گیا تو اسلام آباد پولیس کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ اسکول بند کیا جاچکا ہے۔
دیکھتا ہوں کیسے اسکول بند ہوتے ہیں، چیف جسٹس
پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے صدر زعفران الٰہی عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے بتایا کہ اگر اسکولوں نے عدالتی حکم پر ایک ماہ کی بھی فیس واپس کی تو وہ اسکول بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کو اسکول بند کرنا ہے تو کردیں، میں دیکھتا ہوں کہ کیسے اسکول بند ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: نجی اسکولوں کی فیس میں 5 فیصد سے زائد اضافہ غیر قانونی قرار
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اربوں روپے اسکولوں سے کما رہے ہیں۔
سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ان اسکولوں میں سے کئی اسکول ایسے بھی ہیں جنہوں نے بیان دیا تھا کہ انہوں نے ایک گیراج سے اسکول شروع کیا تھا۔
عدالت نے ایک مرتبہ پھر حکم جاری کیا کہ 5 ہزار سے زائد فیس وصولی پر 20 فیصد کمی کرنا ہوگی اور اس حکم نامے کا اطلاق پورے ملک کے نجی اسکولوں پر ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت تعلیمی اداروں کی کمی کو پورا نہیں کر پائی جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کی جگہ پرائیویٹ اسکولوں نے لے لی اور سرکاری اسکولوں کو ناکام کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کو گرمیوں کی تعطیلات کی فیس لینے سے روک دیا
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پڑھا لکھا پنجاب اور دیگر بس صرف نعرے تھے۔
'کیا ایف بی آر سو رہا تھا'
سماعت کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی آڈٹ ٹیم کے رکن بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ پرائیویٹ اسکولوں نے ایک ارب 20 کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کر دیا ہے جبکہ 7 کے خلاف ایکشن لیا جاچکا ہے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ اسکولوں نے ایف بی آر کی کارروائی سے بچنے کے لیے حکم امتناع بھی لیا ہوا ہے.
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پہلے کبھی اس کی نشاندہی کی گئی تھی، کیا ایف بی آر سورہا تھا؟
چیف جسٹس نے ایف بی آر حکام سے ان دستاویزات کو پیش کرنے کا کہا جس کے مطابق لاہور گرامر اسکول کی ڈائریکٹر 85 لاکھ روپے تنخوا لے رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی میں رہائشی جگہ پر قائم اسکولوں اور کاروبار کے خلاف کارروائی کا فیصلہ
اس دوران سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ایک ڈائریکٹر کی سالانہ تنخواہ 12 کروڑ 30 لاکھ روپے ہے.
اس کے علاوہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایک ڈائریکٹر ساڑھے 10 کروڑ روپے سالانہ تنخواہ لے رہی ہیں.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ہیں وہ غریب لوگ جو بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں.
اسکولوں کیلئے مضبوط ریگولیٹر کی ضرورت
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پرائیویٹ اسکولوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مضبوط ریگولیٹر چاہیے، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ریگولیٹر بھی مل جاتے ہیں.
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ پرائیویٹ اسکول خود کو ریگولیٹ کروانا ہی نہیں چاہتے جبکہ کہتے ہیں کہ عدالت تجاوز کر رہی ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فیصل صدیقی نے بتایا کہ اگر انتظامیہ اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو عدالت کرے گی۔
پیکن ہاؤس اسکول سسٹم کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہر ضلع میں اسکولوں کو ریگولیٹ کرنے کی اتھارٹی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کیس کی آخری سماعت کے بعد عملدرآمد بینچ بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔