پاکستان

منی لانڈرنگ کے خلاف تاریخ کی بڑی کارروائی کرنے جارہے ہیں، وزیر اعظم

امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا اندازہ ہے کہ 10 ارب ڈالر کی سالانہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے، عمران خان
|

وزیراعظم عمران خان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تمام اقدامات کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں منی لانڈرنگ کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی کرنے جارہے ہیں۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کی چیخیں سن رہا ہوں لیکن منی لانڈرنگ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور ان ملزمان سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ڈالر کے لیے 'آئی ایم ایف' پروگرام کی ضرورت نہیں اور ہم آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ معیشت میں اصلاحات ملک کے لیے کیں، منی بجٹ عوام دشمن نہیں ہوگا بلکہ کاروبار کا فروغ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈالر کی اسمگلنگ کرنے والے بھی اپنے دن گننا شروع کردیں۔

ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے تمام اقدامات پاکستان کے حق میں ہیں کیونکہ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ روکنے اور مسلح گروپوں کی روک تھام چاہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ای سی ایل میں شامل 172 افراد کی فہرست جاری

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ واضح کردوں کہ ملک کو چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اب کوئی بحران نہیں ہے، سرمایہ کار اطمینان رکھیں ملک میں کوئی غیر یقینی کی صورت حال نہیں ہے۔

حکومتی اقدامات کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اور موثر غربت مٹاؤ پروگرام لے کر آرہا ہوں۔

ماضی میں دوسروں پر انحصار کی پالیسی نے نقصان پہنچایا، وزیراعظم

بعد ازاں اسلام آباد میں دنیا بھر سے آئے ہوئے پاکستانی سفیروں کی دو روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے سفیروں کو بیرون ملک منی لانڈرنگ کے حوالے سے کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں دوسروں پر انحصار کی پالیسی سے بہت نقصان پہنچا۔

اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘قومی وقار کی بات پر مذاق اڑایا جاتا ہے، قوموں کی غیرت بڑی اہمیت رکھتی ہے’۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'دوسروں پر انحصار پر بنائی گئی پالیسی سے نقصان پہنچا، سیٹو، سینٹو اور امریکا سے امداد نہ آئی تو ملک تباہ ہوجائے اور انحصار کے تحت خارجہ پالیسی بنائی گئی اور ہماری قیادت نے فیصلے اس بنیاد پر کیے کہ امداد کہاں سے آئے گی اور ہمیں آئی ایم ایف سے قرضہ کیسے ملے گا'۔

انہوں نے کہا کہ دوسروں پر انحصار کی پالیسی سے بہت نقصان ہوا اس لیے دوسروں پر انحصار کی پالیسی کو ترک کرنا پڑے گا۔

عمران خان نے کہا کہ 'جب ہمارے پاس خسارہ بڑھنے لگا تو ملک میں آمدنی بڑھانے کے بجائے قرض لینے یا امداد لینے کا شارٹ کٹ لیا جس سے ہم نے اپنی خومختاری بھی کھو دی اور ہماری غیرت اور خود داری ختم ہوگئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ملک کو ٹھیک کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں کر سکے اور قوم کی تعمیر بھی نہیں ہوئی اور ملک میں جتنے بھی مسائل آئے ہیں وہ اسی ذہنیت کی وجہ سے آئے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ذہنیت میں تبدیلی آئے'۔

یہ بھی پڑھیں: ’داخلی صورتحال پر توجہ دیے بغیر خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دی جاسکتی‘

وزیراعظم نے کہا کہ 'ذہنیت میں تبدیلی لانے اس لیے ضروری ہے کیونکہ باہر ہماری ایک بری تصویر ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایران میں خمینی کے انقلاب کے بعد مغرب میں اسلامی بنیاد پرستوں کی اصطلاح آئی اس کے بعد نائن الیون اور اس سے قبل بھی میں نے دیکھا کہ ہماری قیادت خود ہمارے وزرااعظم باہر جاکر دنیا کو یہ کہتے تھے کہ میں ہوں لبرل اور اب مجھے بچالو ورنہ یہاں سارے بنیاد پرست آئیں گے اور ڈراتے تھے'۔

گزشتہ حکومت اور وزیر خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'واشنگٹن میں ایشیا سوسائٹی میں پاکستان تحریک انصاف اور اپنے اندر فرق کے سوال پر وزیرخارجہ کہتا ہے کہ ہم لبرل ہیں اور یہ تحریک انصاف مولویوں کے ساتھ ہے'۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'اس ملک کی اشرافیہ نے پیسے لینے کے لیے اپنے آپ کو لبرل بنا کر ملک میں تقسیم پیدا کی اور میں نے خود صحافیوں کو دیکھا کہ جو یہ کہہ رہے تھے کہ یہاں بنیاد پرست آئیں گے، لیکن دنیا میں ہر جگہ اکثریت جدید لوگوں کی ہوتی ہے جبکہ بنیاد پرست بھی ہوتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ہم نےمختصر مدت کے مفاد کے لیے غلط فیصلے کیے اور اشرافیہ ذاتی مفاد کے لیے بیرون ملک، پاکستان کا منفی تشخص پیش کرتی رہی۔

سفیروں کو اپنی ترجیحات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میں چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے دفتر خارجہ اپنی ذہنیت تبدیل کرے، ہم اپنے سفیروں سے وہ کام چاہتے ہیں جو ابھی تک نہیں ہوا اور پاکستان ٹیم ورک سے ہی اس صورت حال سے باہر آئے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دفتر خارجہ اور سفیروں سمیت دیگر اداروں سے رابطہ بہت ضروری ہے کیونکہ جن چیلنجز کا سامنا ہے ان پر معمول کے طریقوں سے قابو نہیں پاسکتے ہیں'۔

عمران خان نے کہا کہ 'سفیروں سے سب سے پہلے میں یہ چاہتا ہوں کہ سمندر پار پاکستانیوں سے معاملات ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے جو استعمال میں نہیں ہے اس لیے ان کے لیے تمام رکاوٹیں ختم کرنے ہیں اور ان کی فہرستیں بنائیں تاکہ ہم ان سے رابطہ کرسکیں، آپ ان سے مسلسل رابطے میں رہیں کیونکہ وہ سرمایہ کاری کریں گے'۔

سفیروں کو وزیراعظم نے کہا کہ 'دوسرے نمبر پر باہر رہنے والے ہمارے محنت کش کے لیے آسانیاں پیدا کریں، ان کے لیے خاص رحم ہونا چاہیے کیونکہ 19 ارب ڈالر نہ آئے تو ہمارا کیا حال ہو اس لیے ان کی خدمت کریں'۔

انہوں نے کہا کہ 'برآمدات کے حوالے سے توجہ دیں کہ ہم افریقہ اور لاطینی امریکی ممالک کو کیا فروخت کرسکتے ہیں اور وہاں جائیں تو آپ رپورٹ لیں کہ ہم کیا کررہے ہیں'۔

'10ارب ڈالر کی سالانہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے'

وزیراعظم نے سفیروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'چوتھی چیز منی لانڈرنگ پر بھی آپ کی بڑی مدد چاہیے کیونکہ منی لانڈرنگ کے حوالے جعلی بینک اکاؤنٹس کی رپورٹ پڑھی ہوگی اور کس سطح پر پیسہ چوری ہوکر باہر جا رہا ہے'

ان کا کہنا تھا کہ 'منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے کوششیں تیز کرنا ہوں گی، لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی کے لیے مختلف ممالک سےمعاہدے کر رہے ہیں'۔

عمران خان نے کہا کہ 'امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا اندازہ ہے کہ 10 ارب ڈالر کی سالانہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے اس کو جتنا بھی روک سکیں روکیں کیونکہ ہمارے روپے پر جو دباؤ پڑتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے'۔

قبل ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ غیر مستحکم داخلی صورت حال منفی تشخص کی وجہ بنی، داخلی صورت حال پر توجہ دیے بغیر خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دی جاسکتی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت تک ایک موثر خارجہ پالیسی نہیں بن سکتی جب تک آپ داخلی معاملات کو مدنظر نہیں رکھتے، اگر داخلی صورت حال صحیح نہیں ہے تو جتنے بھی قابل سفارت کار کیوں نہ ہوں وہ توقعات کے مطابق کام نہیں کرسکتے۔