دنیا

امریکا نے بھی روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کو 'نسل کشی' قرار دے دیا

ایوان نمائندگان میں پیش کردہ قرارداد کے حق میں 394 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ صرف ایک ووٹ مخالفت میں آیا۔

امریکا کے ایوان نمائندگان نے میانمار حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کو 'نسل کشی' قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف قرارداد منظور کرلی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پیش کردہ قرارداد کے حق میں 394 ایوان نمائندگان نے ووٹ دیا، جبکہ صرف ایک ووٹ مخالفت میں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو درپیش مشکلات

واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے اگست میں رپورٹ جاری کی تھی جس میں تصدیق کی گئی کہ میانمار کی فوج نے ’نسل کشی کے ارادے‘ سے مسلمان اقلیتوں کا بڑے پیمانے پر قتل اور گینگ ریپ کیا۔

اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ میانمار حکام کو نسل کشی کے الزامات کا سامنا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

دوسری جانب میانمار فوج نے عائد کردہ الزامات کو مسترد کیا اور موقف اختیار کیا کہ تمام تر اقدامات انسداد دہشت گردی مہم کے حصہ تھے۔

ایوان نمائندگان نے میانمار فوج پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا الزام عائد کیا اور ساتھ ہی زیرحراست دو صحافیوں کو رہا کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، اقوام متحدہ

امریکا اور کینیڈین مسلم تنظیموں کی جانب سے تشکیل دی گئی ’برما ٹاسک فورس‘ نے نسل کشی سے متعلق پاس ہونے والی قرارداد کا خیر مقدم کیا ہے۔

ایوان نمائندگان نے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سے مطالبہ کیا کہ عالمی قوانین کے تحت میانمار حکومت اور فوج کی جانب سے رخائن میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ایوان نے مطالبہ کہا کہ ’انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے ذمہ داران کی نشاندہی، سزا، گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں‘۔

یاد رہے کہ اگست 2017 میں میانمار کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوج اور مقامی مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے شروع کی گئیں خونریز کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: روہنگیا بحران سے متعلق 'غلط معلومات' پر آنگ سان سوچی کی مذمت

میانمار سے ہجرت کرکے بنگلہ دیش کی سرحد پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 7 لاکھ کے قریب تھی۔

اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل و غارت اور خواتین کے ریپ پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، جبکہ ترکی کی جانب سے مہاجرین کے لیے خصوصی امداد کی گئی تھی۔

میانمار کی فوج صحافیوں، سفارت کاروں اور امدادی تنظیموں کو بھی اپنے طلم کی داستانیں چھپانے کے لیے شمالی ریاست رخائن میں داخلے سے روکتی آئی ہے۔