دنیا

بھارتی فوج کی پیلٹ گن کا نشانہ بننے والی کشمیری بچی کی آنکھ کا آپریشن

مظاہرے کے دوران بھارتی فوج کی شیلنگ کی وجہ سے 20 ماہ کی بچی کی آنکھ پر پیلٹ گن کا چھرا لگا تھا۔
|

سری نگر: بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں قابض فوج کی جانب سے پیلٹ گن کے فائر کیے گئے چھرے کا نشانہ بننے والی 20 ماہ کی بچی کے آنکھ سے لوہے کا چھرا نکال دیا گیا۔

فرانسیسی اخبار 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت کے ظلم کی پہچان بننے والی حبا جان کی آنکھ کا آپریشن کردیا گیا تاہم ابھی یہ بات کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ننھی حبا دوبارہ اپنی آنکھ سے دیکھ سکے گی یا نہیں۔

لڑکی کے والدین کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ مظاہرے کے دوران بھارتی فوج اور گاؤں والوں کے درمیان جھڑپوں میں آنسو گیس سے بچنے کے لیے بھاگتے ہوئے بچی کو چھرہ لگا تھا۔

مزید پڑھیں: کشمیری نوجوانوں پر چھروں کا قہر

رپورٹ کے مطابق بچی کے زخم نے ثابت کیا کہ متنازع علاقے میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے، جو اکثر پرتشدد صورتحال اختیار کرجاتے ہیں، میں پیلٹ گنز کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

سری نگر کے شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں حبا کا آپریشن کرنے والے سرجن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پیلٹ گن کے چھرے کو نکال لیا ہے تاہم بچی کی آنکھ بہت بری حالت میں ہے‘۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈاکٹر نے بتایا کہ ’ایک نومولود، جس کی بینائی کا معائنہ نہیں کیا جاسکتا، کے بارے میں یہ کہنا کہ سرجری کامیاب رہی، فی الوقت ممکن نہیں‘۔

قبل ازیں حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق بھی حبا نثار کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پیلٹ گنز سے متاثر کشمیریوں کی بینائی لوٹ سکے گی؟

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے حریت رہنما کا کہنا تھا کہ ’کمسن حبا نثار 2 مرتبہ آپریشن کے مرحلے سے گزریں، ان کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے‘۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’اس جارحیت کا خاتمہ کب ہوگا اور کب تک کشمیریوں کو اس طرح کے غیر انسانی ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جاتا رہے گا‘۔

خیال رہے کہ بھارت نے ہمالیہ خطے میں 12 بور کی پیلٹ شاٹ گن 2010 میں بھارت مخالف مظاہرین اور حکومتی فورسز کی جھڑپ میں متعارف کرائی تھی جس میں تقریباً 100 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

ہمالیہ کے متنازع خطے سے قابل اعتماد معلومات کا ملنا مشکل ہے تاہم سرکاری ڈیٹا کے مطابق 2017 میں صرف 8 ماہ میں اس ہتھیار سے 13 افراد ہلاک اور 6 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے 8 سو افراد کی آنکھیں متاثر ہوئی تھیں۔

سرجن کا کہنا تھا کہ ’ہم اس طرح کے واقعات سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر نمٹتے ہیں، حبا ہمارے لیے کچھ مختلف نہیں‘۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: لاپتہ بچی کی لاش برآمد، جھڑپوں میں 25 افراد زخمی

واضح رہے کہ 1989 سے متعدد مسلح گروپ بھارتی فوج اور ہمالیہ کے علاقوں میں تعینات پولیس سے لڑتے آئے ہیں اور وہ پاکستان سے انضمام یا کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں۔

اس لڑائی کے دوران اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، جس میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

کشمیر میں جاری اس تشدد میں گزشتہ دہائی میں تیزی سے کمی آئی تھی لیکن گزشتہ سال بھارتی فوج کے حریت پسندوں کے خلاف آپریشن آل آؤٹ کے نتیجے میں 350 اموات ہوئیں اور وادی میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔

حکام کا کہنا تھا کہ رواں سال پرتشدد مظاہروں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنا ہے۔