یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان 15ہزار قیدیوں کے ناموں کا تبادلہ
رمبو: یمن کی حکومت اور حریف باغیوں نے قیدیوں کے بڑے تبادلے کے لیے 15 ہزار سے زائد ناموں پر تبادلہ خیال کیا ہے تاہم ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ رواں ہفتے ہونے والے مذاکرات سے جنگ بندی کا امکان نہیں۔
تقریباً 4 سال سے جاری اس جنگ نے ایک کروڑ 40 لاکھ یمنیوں کو قحط کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
اس معاملے پر سویڈن کے دیہی علاقے رمبو میں اقوام متحدہ کے تھٹ ہونے والے ثالثی مذاکرات میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت کے منصور ہادی اور ریاض کے مخالف ایران سے روابط رکھنے والے حوثی باغیوں نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں: یمن تنازع: 'عالمی دباؤ کے باوجود سعودیہ کی عسکری امداد جاری رکھیں گے'
مذاکرات میں ثالثوں نے یمن کے 2 اہم شہروں میں بدامنی کو ختم کرنے پر زور دیا، ان شہروں میں باغیوں کے زیر اثر ساحلی شہر اور انسانی امداد کے لیے اہم تصور کیے جانے والے حدیدیہ اور یمن کا تیسرا بڑا شہر تیز شامل ہے، جو جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
تاہم دونوں حریف اقوام متحدہ کی جانب سے دونوں شہروں سے متعلق تجویز کیے گئے مسودے پر راضی نہیں ہوئے۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے عہدیدار نے بتایا ثالث کی جانب کہ سویڈن مذاکرات کا مقصد باضابطہ طور پر جنگ بندی نہیں تھا، تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایک مکمل ’سیاسی فریم ورک‘ کے لیے مسودہ دونوں فریقین کو جمع کرایا گیا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے عہدیدار نے اس حوالے سے مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
واضح رہے کہ یمن تنازع کے دونوں فریقین کے درمیان سویڈن مذاکرات 2 سال کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات تھی۔
اس طرح کے مذاکرات کا آخری دور 2016 میں ہوا تھا جو 3 ماہ سے زائد کے مذاکرات کے بعد ختم ہوگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یمن بچوں کیلئے جہنم بن گیا ہے، اقوام متحدہ
قبل ازیں رواں ماہ کے آغاز میں اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر مارٹن گرفٹس کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں قیدیوں کا تبادلہ ایک اہم معاملہ تھا اور اس پر تنازع کم نوعیت کا تھا۔
یاد رہے کہ 2015 سے شروع ہونے والے اس تنازع کے بعد سے یمنی حکومت اور باغیوں کے درمیان یہ سب سے بڑا قیدیوں کا تبادلہ ہے۔
اس حوالے سے قیدیوں کے تبادلے پر حکومتی نمائندے عسکر زئیل کا کہنا تھا کہ باغیوں نے 7 ہزار 4سو 87 قیدیوں کے نام دیے ہیں جنہیں وہ چھوڑنا چاہتے ہیں جبکہ حکومت نے 8 ہزار 5سو 76 قیدیوں کے نام دیے ہیں۔
یہ خبر 12 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی