دنیا

روس کی افغان سیاست دانوں کو طالبان سے مذاکرات کی دعوت، حکومت نظرانداز

تمام انتظامات کو یقینی بنانے کے بعد اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں، روسی وزارت خارجہ کی ترجمان کا بیان

روس نے صدر اشرف غنی کی حکومت کے علم میں لائے بغیر افغانستان کے سینئر سیاست دانوں کو طالبان سے مذاکرات کے لیے ماسکو بلا لیا جبکہ افغان حکومت نے کہا ہے کہ اس سے امریکی سربراہی میں جاری امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

روس کی جانب سے سابق صدر حامد کرزئی سمیت افغان حکومت سے قریبی تعلقات رکھنے والے 8 میں سے 6 رہنماؤں کو دعوت دینے کی تصدیق ہوگئی ہے۔

خیال رہے کہ روس نے رواں سال اگست میں ماسکو میں امن مذاکرات کی تجویز دیتے ہوئے ایک سربراہی اجلاس میں طالبان سمیت 12 ممالک کو شرکت کی دعوت دی تھی لیکن افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے دعوت ٹھکرانے پر اس اجلاس کو ملتوی کردیا گیا تھا۔

اشرف غنی کا موقف تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کابل حکومت کی سربراہی میں ہونے چاہیئں، جس کے بعد امریکا نے بھی اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا سے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کیلئے تیار ہیں، طالبان

افغانستان کے تین سینئر عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ماسکو کی جانب سے مذاکرات کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ سے حکومت خوش نہیں ہے۔

روس میں ہونے والے مذاکرات میں شامل ہونے والے ایک سینئر افغان عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے روس سے اجلاس منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ مختلف فورمز پر افغان طالبان سے مذاکرات سے امریکا کی سربراہی میں جاری امن عمل مزید پیچیدہ ہوگا، لیکن انہوں نے ہماری درخواست مسترد کردی’۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زیخاروا کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں کانفرنس کی تفصیلات سے آگاہ کر سکوں۔

ماریا زیخاروا نے ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ اجلاس کے شرکا کے ناموں کو حتمی شکل دی جارہی ہے، لیکن روس باقاعدہ اعلان سے قبل تمام چیزوں کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔

دوسری جانب سے امریکا اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات میں گزشتہ ماہ تیزی دیکھی گئی تھی اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی قطر میں طالبان سے ملاقات ہوئی تھی، لیکن کئی افغان سیاست دانوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس عمل سے کنارہ کشی کرلی ہے۔

مزید پڑھیں: ’امریکی حکام اور طالبان کے درمیان براہِ راست پہلی ملاقات‘

حامد کرزئی، افغانستان میں 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 13 برس تک ملک کے حکمراں رہے تھے لیکن وہ امریکی پالیسی کے سخت ناقد بن گئے ہیں اور روس جانے والے ان رہنماؤں میں شامل ہیں۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے ترجمان محمد یوسف ساہا کا کہنا تھا کہ ‘کرزئی ماسکو جائیں گے کیونکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے کسی بھی موقع کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے’۔

صوبہ بلخ کے سابق گورنر اور جماعت اسلامی کے ایک رہنما عطا محمد نور نے کہا ہے وہ بھی اجلاس میں شرکت کے لیے روس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے امریکا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ طالبان کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہونے چاہیے یا نہیں۔

عطا محمد نور کا کہنا تھا کہ افغانی سمجھ گئے ہیں کہ کوئی ایک بیرونی طاقت کے فارمولے پر عمل کرکے افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔

افغان طالبان کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ وہ ہمسایہ ممالک چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان سے مذاکرات کے لیے اپنا وفد ماسکو بھیجیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اکثر ممالک نے ہماری حیثیت کا اعتراف کیا ہے اور ہمیں ایک الگ سیاسی طاقت کے طور پر دعوت دی ہے جو درحقیقت ہماری فتح ہے’۔


یہ خبر 3 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔