پاکستان

حکومت کا آئی ایم ایف کا مجوزہ پیکج پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا اعلان

وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حکومت نے عام آدمی پر بوجھ کم کیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ حکومت انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے مجوزہ بیل آؤٹ پیکج منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے رکھے گی۔

وزیر خزانہ نے پیر کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے عام آدمی پر بوجھ کم کیا ہے، جہاں سابقہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے زیر استعمال ضروری اشیا پر بھی ٹیکس بڑھا دیے تھے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف پیکیج چین کا قرض واپس کرنے کیلئے نہیں لے رہے، وزیر خزانہ

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے مقابلے میں موجودہ حکومت نے صرف لگژری گاڑیوں اور مہنگے موبائل فونز پر ٹیکسز لگائے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ ماضی حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ کے بھاری خسارے کے سبب ہماری حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ کے موجودہ خسارے کو پُر کرنا ضروری ہے جس کے لیے کم از کم 12 ارب ڈالر درکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینا پڑیں گے، وزیراعظم

وزیر خزانہ نے معاشی نظام میں اصلاحات کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے صنعتی شعبے کو سہولت دینے کے لیے کئی ٹھوس اقدامات کیے ہیں جن میں سستی گیس و بجلی کی فراہمی شامل ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے۔

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت اپنے انتخابی منشور کے برخلاف کوئی بھی قدم نہیں اٹھائے گی، ہم پاکستان سے لوٹ کر بیرون ملک لے جائی جانے والی رقم واپس لانے کے لیے کئی اقدامات کررہے ہیں اور اس مقصد کے تحت قومی اداروں کو مضبوط کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ موجودہ حکومت مستقبل میں آئی ایم ایف پیکج سے بچنے کے لیے آمدنی کے نئے وسائل پیدا کرنے کے لیے پالیسیز متعارف کرائے گی۔

مزید پڑھیں: کیا پی ٹی آئی کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن ہے؟

رواں سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہیں ملک کی معاشی صورتحال کو ابتر قرار دیتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرض کا عندیہ دیا تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ اقتصادی ماہرین سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی منظوری دے دی ہے۔

حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے اعلان کے بعد ملکی روپے کی قدر میں مزید کمی دیکھنے میں آئی اور ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 136روپے تک پہنچ گیا جہاں ایک دن قبل اس کی مالیت 124 روپے تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، چین کے قرضوں کے باعث مشکلات میں پھنسا ہے، امریکا

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہو بلکہ 1980 کی دہائی سے اب تک متعدد حکومتیں قرض کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کر چکی ہیں۔

اب تک پاکستان آئی ایم ایف سے 12 مرتبہ قرض لے چکا ہے اور آخری مرتبہ 2013 میں اسی طرح کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت نے 6.6 ارب ڈالر کا قرض لیا تھا۔