پاکستان

یوسفی کی نثر میں ضیاء کے لہجے کا ٹھاٹ

اگر بغور مطالعہ کریں تو مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں میں وسعت اور گہرائی نظر آتی ہے، ضیاء محی الدین

شہر میں منعقد محفل سخن کے بارے میں کماحقہ معلومات کا واحد ذریعہ راشد راجپوت تھا جو گزشتہ سال شادی کے بعد کراچی کو خیرباد کہہ گیا۔ بھلاہو فیس بک کا، جو کسی دیارِعجائبات سے کم نہیں۔ ایک پوسٹ پر نظر پڑھی کہ ضیاء محی الدین آرٹس کونسل میں مغفور ومشفق مشتاق احمد یوسفی کے خطوط کے اقتباسات پڑھیں گے۔ مجھ جیسے کم سواد اور لااُبالی شخص کے لیے اردو نثر سے محبت کا رشتہ ضیاء محی الدین کی آواز کے ذریعے ممکن ہوا۔

بقول مرحوم مشتاق احمد یوسفی: لفظ کے مختلف شیڈز اور تہیں اس وقت تک نہیں کھلتیں جب تک وہ زبان سے ادا نہ کیے جائیں۔

آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ ضیاء محی الدین کو گلدہ دستہ پیش کررہے ہیں

قیاس کرنا کہ ضیاء صاحب کے لہجے کا ٹھاٹ ہی یوسفی صاحب کی نثر میں قوس قزح کے رنگ بکھیر دیتا ہے قطعی مبالغہ آرائی ہوگی۔

ہاں! ایسا ضرور ہوتا ہے کہ ضیاء محی الدین کی آواز سے یوسفی صاحب کی تحریروں کے چلبلے کردار خواب و خیال میں رقص کرتے نظر آتے ہیں۔

9 اگست کو بروز اتوار دن 3 بجے آرٹس کونسل کا ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا یعنی جب میں پہنچا تب صرف سیڑھیوں پر بیھٹنے کی جگہ تھی۔اردو ادب کی محفلوں کا یہ حسن ہے کہ کوٹ پینٹ والا بھی پالتی مارکر بیٹھنے کو معیوب نہیں سمجھتا۔

ضیاء محی الدین کی آواز میں مشتاق احمد یوسفی کے منتخب اقتباسات سننے کیلئے اہل ذوق سے ہال بھرا ہوا ہے

ریختہ سے دوستی کا ایک تقاضا یہ ہے کہ جو شعر، نثر، نظم وغیرہ اچھی لگے ضرور اپنے حلقہ احباب میں تذکرہ کریں، اسی کلیہ کے تحت آرٹس کونسل میں منعقد بیاد مشتاق احمد یوسفی میں پڑھے گئے اقتباسات آپ کے لیے پیش خدمت ہیں۔

راقم نے ضروری سمجھا کہ یوسفی صاحب کے بیش قیمت کلمات بھی پیش کردیئے جائیں جو انہوں نے ضیاءمحی الدین کے لیے لاہور اورینٹل اسٹیڈیز میں منعقد ایک تقریب میں صدارتی خطاب کے دوران کہی۔

نقاد کی موت

ضیاء محی الدین کی تاثیر میں صرف ایک عیب ہے جس کسی نے نقالی میں ضیاء محی الدین کی تحریر پڑھنے کی کوشش کی وہ مارا جائے گا، یہ راگ،سنگھار اور یہ ساز انہی کو سجتا ہے۔

مردے میں جان

یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ تصنیف سرگزشت سے ایک اقتباس سن کر ہمارے ہم دم و ہم راز مرزا عبدالودود بیگ ہماری پیٹھ تھپتھپا کر کہنے لگے کہ واللہ ضیاء محی الدین نے تحریر میں جان ڈال دی"۔ جس پر ہم نے کہا کہ جان تو مردے میں ڈالی جاتی ہے تو بولے اور کیا ضیاء محی الدین نے یہ ہی تو کیا ہے۔ بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں۔

سخن فہمی اور لہجے کا ٹھاٹ

رتن ناتھ سرشار، چوہدری محمد علی ردولوی، فیض احمد فیض، ن م راشد اور پطرس کی تصانیف کے شہ پارے ضیاء محی الدین نے پڑھے ہیں وہ جہاں لکھنے والے کے کمال فن کا نمونہ ہیں وہاں پڑھنے اور پیش کرنے والے کے حسن انتخاب، سخن فہمی، نکتہ سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت، لفظ کا مزاج اور لہجہ اور لہجے کا ٹھاٹ پہچان کی صلاحیت کا صحیح معنوں میں منہ بولتا ثبوت ہے۔

لفظ کا کش

فیض صاحب کی نظمیں جس طرح ضیاء محی الدین نے پڑھی ہیں وہ نہ صرف ان کی عقیدت بلکہ ان کی نقطہ شناسی اور سخن سنجی کا ثبوت ہے۔ دو تین لفظوں کے بعد وہ ایک سسکی لے کر اپنے کلام میں لذیزساسکتہ پیدا کرتے ہیں، سیگریٹ کے رسیا تھے، وہ دستاب نہ ہو تو لفظ کا کش ایسا لگا تے کہ سننے والا دھت ہو جاتا۔

ویڈیو اور تصاویر، آرٹس کونسل کراچی