دنیا

'افغان جنگ شام سے زیادہ خطرناک روپ دھار لے گی‘

افغانستان میں 2018 تک شہریوں سمیت 20 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں، عالمی تجزیہ کار

کابل: عالمی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں جاری 17 سالہ جنگ کے نتیجے میں افغان تنازع رواں برس کے اختتام تک شام جیسی صورتحال میں بدل سکتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی ماضی کے صدور جیسی ہی ہے، وہ میدان جنگ میں معمولی کامیابی بھی حاصل نہیں کر سکے اور جو امریکی بچے نائن الیون کے بعد پیدا ہوئے وہ اب بڑے ہوچکے ہیں جن کی حمایت حاصل کرنے میں وہ ناکام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر افغانستان میں جاری جنگ کے منفی نتائج سے مایوس

یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں افغانستان کے امور کے ماہر جونی ویلز نے کہا کہ ’افغانستان میں اموات کا تناسب اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ جنگ زدہ شام کی طرح اس کا حال ہوگا، جو دنیا کا بدترین تنازع بن چکا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’شام میں جنگ وجدل کا سلسلہ افغانستان کے 10 سال بعد شروع ہوا، جہاں رواں برس لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد 15 ہزار ریکارڈ کی گئی‘۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تجزیہ کار گریم اسمتھ نے بتایا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان میں 2018 تک شہریوں سمیت 20 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔

مزید پڑھیں: کیا افغانستان واقعی امریکا کے لیے ایک اور ویتنام ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں اموات کا تناسب آئندہ برسوں میں مزید بڑھ جائے گا جو شام سے بھی زیادہ ہوگا۔

دوسری جانب سویڈن میں کانفلٹ ڈیٹا پروگرام کے مطابق افغانستان میں جاں بحق ہونے والوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہوگی، کیونکہ 2017 تک جنگ میں شامل تمام فریقین کے مرنے والوں کی تعداد 19 ہزار 694 رہی۔

واضح رہے کہ رواں برس کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی افغان پالیسی سے متعلق مایوس کن نتائج آنے کے بعد واشنگٹن حکام نے افغان پالیسی میں نظر ثانی پر غور کرتے ہوئے افغانستان میں عسکری مشیروں، تربیت کاروں اور اسپشل فورسز کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی مدد شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کے خلاف امریکی فضائی حملوں میں ریکارڈ اضافہ

اس کے علاوہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کرنا بھی نئی حکمت عملی کا حصہ تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس 3 ہزار اضافی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کی منظوری دی تھی، اس طرح افغانستان میں کُل امریکی فوجیوں کی تعداد 15 ہزار ہو گئی ہے۔


یہ خبر 15 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔