دنیا

‘افغان جنگ میں امریکی عوام کی حمایت کیلئے مسلسل جھوٹ بولا گیا‘

واشنگٹن انتظامیہ نے مسلسل ناقص اعداد وشمار پیش کیے، امریکا سچ بتانا نہیں چاہتا، نیویارک ٹائمز کا انکشاف

واشنگٹن: امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی حکومت افغانستان میں اپنی 17 برس جنگ کے حق میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلسل ناقص اعدادوشمار پیش کررہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق نیویارک ٹائمز کی اپنی تحقیق اور امریکی حکومت کو عالمی ایڈ ایجنسیوں سے ملنے والے اعداد وشمار سے واضح ہوتا ہے کہ واشنگٹن اپنی عوام کو افغانستان کے حالات سے متعلق سچ بتانا نہیں چاہتا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع کا افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ

امریکی حکومت کہتی ہے کہ طالبان کو افغانستان کے 44 فیصد اضلاع میں کنٹرول حاصل ہے جبکہ نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ جنگجوؤں کو دراصل 61 فیصد علاقے میں مکمل اثر ورسوخ حاصل ہے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2001 میں امریکی آمد کے بعد سے 2017 کے بعد طالبان کو افغان علاقوں میں سب سے زیادہ کنٹرول حاصل ہوا۔

رپورٹ کے مطابق تقریباً 2 ہزار 200 امریکی افغان جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں اور واشنگٹن 40 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم لگا چکا ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ’افغان جنگ مہنگی ترین جنگ ثابت ہورہی ہے، موجودہ لگنے والی رقم مارشل پلان سے زیادہ جس کے تحت جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ کو ازسرنو تعمیر کرنے کے لیے درکار تھی۔

مزید پڑھیں: افغانستان: چیک پوسٹوں پر حملوں میں 6 پولیس اہلکار ہلاک

نیویار ٹائمز کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے افغان جنگ میں اتنی بڑی رقم لگانے کے بعد امریکی عوام کا دباؤ کم کرنےکے لیے ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں طالبان کا زور ٹوٹ رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی فوج کا دعویٰ ہے کہ افغان حکومت ملک کے 56 فیصد حصے پر ’اثر ورسوخ یا کنٹرول‘ رکھتی ہے۔

دوسری جانب نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ متعدد اضلاع میں افغان حکومت صرف ضلعی ہیڈ کواٹر اور ملٹری بیس پر کنٹرول رکھتی ہے جبکہ طالبان دیگر انصرام سنبھالتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں امن صرف سیاسی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے: امریکا

اسی طرح کاغذات میں طالبان کے مقابلے میں افغان سیکیورٹی فورسز کی تعداد 10 بتائی گئی لیکن ایک تھائی سے زیادہ فوجی اور پولیس افسران ’گھوسٹ‘ ہیں، وہ چھوڑ چکے ہیں یا بھی انہیں پے رول سے نکال دیا گیا۔

علاوہ ازیں دیگر کی ٹریننگ اہلیت اور قابلیت ناقص ہے۔


یہ خبر 9 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی