پاکستان

فنڈز، منظوری میں تاخیر سے سی پیک منصوبے التوا کا شکار

پی ایس ڈ ی پی منصوبوں کے لیے مختص 25 ارب روپے جاری نہیں کیے جا سکے، حکام نیشنل ہائی وے اتھارٹی

اسلام آباد: سیاسی اقتدار کی منتقلی کے باعث چین کی جانب سے منظوری میں تاخیر اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے فنڈز کی عدم فراہمی سے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مغربی روٹ کی تکیمل مشکلات سے دوچار ہے۔

یہ انکشاف نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے اجلاس میں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘گلگت میں سی پیک منصوبے کو 400 بھارتی تخریب کاروں سے خطرہ‘

این ایچ اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کیا کہ مغربی روٹ کے تحت پی ایس ڈی پی منصوبوں کے لیے مختص 25 ارب روپے جاری نہیں کیے جاسکے۔

حکام نے بتایا کہ ’چینی حکومت بھی پاکستان میں اقتدار کی منتقلی کے عرصے میں کسی منصوبے کی منظوری سے گریزاں رہی جس کے باعث روٹ کی تکمیل کے لیے جاری کام رکاوٹ کا شکار رہا‘۔

سینیٹر آغا شاہ زیب درانی کی زیر صدارت اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ فنڈنگ کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہکلہ ۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان موٹر وے منصوبے پر کام بند ہے اور ساتھ ہی مغربی روٹ پر ڈیرہ اسمٰعیل خان سے زوب منصوبہ بھی چینی حکام کی منظوری کا منتظر ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے الزام لگایا کہ مغربی روٹ پر گزشتہ ڈھائی برس سے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: سی پیک میں زراعت کے منصوبوں کی عدم موجودگی پر وزراء کے تحفظات

انہوں نے بتایا کہ پی ایس ڈی پی میں مغربی روٹ کے لیے رواں مالی سال میں 6 ارب روپے مختص کیے گئے۔

اس دوران سی پیک پراجیکٹ ڈائریکٹر پلاننگ کمیشن حسن داؤد بٹ نے کہا کہ پاکستان نے انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے 6 ارب ڈالر قرضہ لیا اور 90 فیصد منصوبوں پر کام جاری ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ چین 15 توانائی سمیت 22 ترقیاتی منصوبوں پر 36 ارب ڈالر کی سرمایہ کر رہا ہے۔

پلاننگ کمیشن کے افسر نے کمیٹی کو بتایا کہ بولی کے عمل سے بجلی کے فی یونٹ قیمت میں کمی اگلے چند روز میں ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘سی پیک سے تعلق رکھنے والے منصوبوں پر حکم امتناع جاری نہ کیا جائے‘

سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی کے لیے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 9 ہزار 929 فوجی اور 4 ہزار 502 شہری سیکیورٹی کے لیے موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک منصوبوں پر 10 ہزار چینی اور 65 ہزار پاکستانی کام کر رہے ہیں، جن میں کل 8 سرمایہ کار میں سے 4 پاکستانی ہیں جنہوں نے گوادر فری زون پر مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔

اس موقع پر بلوچستان سے تعلق رکھنے کمیٹی کے ارکان نے گوادر شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی شدید کمی پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے بتایا کہ گوادر سٹی ک پانی کی یومیہ طلب 6 لاکھ گیلن ہے، تاہم اسے 3 لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔


یہ خبر 4 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔