داعش کمانڈرز کی معاونت کے الزام میں گرفتار 9 ملزمان بری
پشاور :انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے داعش کمانڈروں کی امداد کے الزام میں گرفتار 9 ملزمان کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کردیا۔
جج محمودالحسن نے ملزمان حضرت بلال، فضل احمد، عبدالعزیز،زاہد الطاف، عبدالہادی، حکیم اللہ، امیر جان اور راز محمد کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کردیا۔
کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 256-کے کے مطابق ٹرائل کورٹ ٹرائل کے کسی بھی مرحلے میں ملزم کو رہا کرسکتی ہے اگر موجودہ ثبوت کی روشنی میں اس کے مجرم قرار دیے جانے کا امکان نہیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حیات اللہ،قاری نذر اور دیگر دو ملزمان کو مفرور قرار دیتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
اگرچہ مقامی پولیس اور انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے 24 جون 2017 کو کیے گئے انکاؤنٹر پر بھی روشنی ڈالی،جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا تھا۔
دفاعی کونسل نے اس بات پر زور دیا کہ ٹرائل کورٹ میں حتمی چارج شیٹ جمع کرانے سے قبل کیس کی ناقص تفتیش کی گئی تھی۔
سی ٹی ڈی نے بری ہونے والے ملزمان کے مختلف کردار بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جن بند فلور ملز پرانکاؤنٹر کیا گیا تھا،حضرت بلال اور فضل احمد نامی ملزمان ان کے مالکان تھے جہاں داعش اراکین بھی پناہ لیے ہوئے تھے جبکہ الطاف اور زاہد ان ملز کے چوکیدار تھے۔
ملزم عبدالعزیز اور حیات اللہ پر زخمی ملزم قاری نذر کو ابتدائی طبی امداد دینے اور افغانستان فرار کرانے کے الزامات عائد ہیں۔
اسی طرح دیگر ملزمان پر دہشت گردوں کی مدد کرنے اور انہیں سہولیات دینے کے الزامات عائد ہیں۔
ارسلان فلور ملز دالازک روڈ پر ہونے والے انکاؤنٹر سے متعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دعویٰ کیا کہ کارروائی میں بڑی مقدار میں دھماکا خیز مواد، خود کش جیکٹس، ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کیا گیا تھا۔
پولیس نے ہلاک ہونے والے ایک جنگجو کی شناخت عارف عرف کمانڈر کے نام سے کی تھی جبکہ دوسرے جنگجو کی شناخت سے متعلق نہیں بتایا گیا۔
تاہم،بعض حکام کا خیال ہے کہ دوسرا جنگجو داعش تنظیم کا کمانڈر مصطفیٰ تھا جو پولیس عہدیداران کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا۔
بعض مجرمان کے وکیل شبیر حسین گیگیانی نے کہا کہ تفتیشی ٹیم نے اندازوں کی بنیاد پر تفتیش کی، اس لیے وہ ان کے مؤکلوں کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں ڈھونڈ سکے۔
انہوں نے کہا چالان (چارج شیٹ) جمع کروانے سے قبل متعلقہ سینئر پراسیکیوٹر کو پراسیکیوشن میں کمی کی نشاندہی کے لیے کسی فائل کو دیکھنا ضروری تھا۔
وکیل نے کہا کہ یہ واضح تھا کہ پراسیکیوٹر نے تفتیشی ٹیم سے کہا تھا کہ موجودہ بنیادوں پر کیس کمزور ہیں جس پر ملزمان بری ہوجائیں گے۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 2 ستمبر 2018 کو شائع ہوئی