فوجی اہلکاروں کے کورٹ مارشل سے متعلق خبروں کی تردید
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد قرار دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں احتجاجی دھرنے کے شرکاء کو لڑکے کے مبینہ قتل میں ملوث فوجی اہلکاروں کے کورٹ مارشل کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ سیکیورٹی فورسز نے 23 اگست کو ریموٹ کنٹرول بم کے الزام میں چند مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا لیکن 24 اگست کو مقامی افراد نے گرفتاری پر احتجاج کیا، اسی دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے احتجاج میں شریک ایک لڑکا جاں بحق اور 10 زخمی ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایس پی آر نے عوام کو ’جعلی کالز‘ سے متعلق خبردار کردیا
لڑکے کی موت کے بعد میران شاہ میں احتجاجی دھرنا شروع ہوا اور شمالی وزیرستان سے نومنتخب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے مطالبات تسلیم کیے جانے پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
وائس آف امریکا دیوا کے مطابق دیگر مطالبات کے علاوہ ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ لڑکے کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ’کیپٹن ضرار کا کورٹ مارشل کیا جائے‘۔
دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی نے چند گھنٹوں بعد ٹوئٹر پر ان دعوؤں کو مسترد کیا اور کہا کہ ’حقائق کی نشاندہی کے لیے انکوائری کا حکم دیا جا چکا ہے، کورٹ مارشل کی یقینی دہانی نہیں کرائی گئی‘۔
مزید پڑھیں: آئی ایس پی آر کے تحت کتنے ایف ایم چینلز چلائے جارہے ہیں؟
میجر جنرل آصف غفور نے فورسز کی جانب سے کسی کو قتل یا زخمی کرنے کی تردید کی اور وائس آف امریکا دیوا پر الزام لگایا کہ میڈیا ’غلط خبریں پیش کرنے کی روایات پر گامزن ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’وزیرستان کے لوگ امن پسند اور امن کو اہمیت دیتے ہیں‘۔
جس پر رکن قومی اسمبلی محسن وارڈ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ پر کہا کہ ’اور آپ نے پیچھے ہٹ جانے کی روایت برقرار رکھی، مذاکرات سے قبل معصوم مظاہرین کی شہادت کے حوالے سے آپ کی جانب سے جرم تسلیم کرنے کی بات کی گئی تھی اور جرم کو تسلیم کیے جانے کے بعد ہی بات چیت شروع کی گئی تھی‘۔