دنیا

اسرائیل کو ’یہودی ریاست‘ قرار دینے کا متنازع بل منظور

منظور کیے گئے قانون میں پورے یروشلم کو متحدہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت جبکہ عبرانی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔

یروشلم: اسرائیل کی پارلیمان نے اسرائیل کو خصوصی طور پر یہودی ریاست کا درجہ دینے کا قانون منظور کرلیا۔

منظور کیے گئے بل میں عبرانی کو سرکاری زبان مقرر کیا گیا جبکہ یہودی بستیوں کی آباد کاری کو قومی مفاد کا حصہ قرار دیا گیا۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق منظور کیے گئے قانون میں پورے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت گردانا گیا ہے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ کے اس اقدام کی عرب اراکین کی جانب سے مذمت کی گئی تاہم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کو ‘صہیونی ریاست’ قرار دینے کیلئے بل تیار

خیال رہے کہ اسرائیل کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی حکومت نے یہ بل پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل، یہودی قوم کا تاریخی وطن ہے اور یہاں انہیں قومی خود مختاری کا خصوصی حق حاصل ہے‘۔

بعد ازاں اسرائیلی پارلیمنٹ ’کنیست‘ میں 8 گھنٹے تک جاری رہنے والے گرما گرم اجلاس کے بعد یہ بل منظور کیا گیا جس کے حق میں 62 اور مخالفت میں 55 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ دیا۔

واضح رہے کہ بل میں موجود کچھ نکات اسرائیلی صدر اور اٹارنی جنرل کے اعتراض پر حذف کردیے گئے تھے، جس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ اسرائیل کو صرف یہودیوں پر مشتمل کمیونٹی قرار دیا جائے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل میں موجود عربوں کا بائیکاٹ کیاجائے، اسرائیلی وزیردفاع

یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی آبادی کا 20 فیصد حصہ اسرائیلی عربوں پر مشتمل ہے، جنہیں قانون کے تحت برابری کے حقوق حاصل ہیں لیکن ان کی جانب سے طویل عرصے سے دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت ملنے کی شکایات کی جاتی ہیں۔

اس حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے عرب رکن پارلیمنٹ احمد طبی نے صہیونی ریاست قرار دینے کے اس بل کی منظوری کو جمہوریت کی موت قرار دیا۔

دوسری جانب ایک عرب غیر سرکاری تنظیم کی رکن ادالہ کے مطابق اس قسم کے نسل پرستانہ قوانین متعارف کروانا نسلی برتری قائم کرنے کی کوشش ہے۔

فلسطینی گاؤں مسمار کرنے کے خلاف احتجاج

علاوہ ازیں ہزاروں فلسطینیوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے بدوی گاؤں خان الاحمر کو مسمار کرنے کے اسرائیلی فیصلے کے احتجاجی ریلی نکالی۔

خیال رہے کہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے مئی میں گاؤں مسمار کرنے کے احکامات دیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ گاؤں اسرائیلی اجازت کے بغیر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

سپریم کورٹ نے گاؤں کے باسیوں کو آس پڑوس کے علاقوں میں منتقل کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے تاہم رواں ماہ کے آغاز میں عارضی طور پر گزشتہ فیصلے پر عملدرآمد روک دیا تھا اور اگست میں دوبارہ سماعت کی منظوری دی تھی۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگر یہ گاؤں مسمار کیا جاتا ہے تو اسرائیلی بستی کو یروشلم اور القدس تک براہِ راست رسائی حاصل ہوجائے گی۔

اسرائیل نے ٖغزہ کو تیل کی فراہمی روک دی

ادھر اسرائیل نے فلسطینیوں کی جانب سے مبینہ طور پر آتشی غباروں کے تازہ حملوں کے بعد پابندی مییں سختی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں تیل کی فراہمی روک دی۔

اس حوالے سے کیے گئے اعلان میں کہا گیا کہ کیریم شالم کے علاقے سے کوئی ایندھن داخل نہیں ہوگا البتہ خوراک اور ادویات کی ترسیل جاری رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل مخالف مہم چلانے والی یہودی کارکن کی یروشلم داخلے پر پابندی

اس ضمن میں اسرائیلی وزیر دفاع اویگڈور لیبر مین کا کہنا تھا کہ یہ اقدام فلسطینی اسلامی تنظیم حماس کی جانب سے جاری اشتعال انگیز کارروائیوں کے ردعمل کے طور پر کیا گیا۔

اسرائیلی حکام کے مطابق اس قسم کی کارروائیوں سے جنوبی علاقے میں آگ لگنے کے سیکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں 7 ہزار ایکڑ پر مشتمل ذرعی رقبہ اور جنگلات جل چکے ہیں اور لاکھوں ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔

واضح رہے کہ 2007 میں غزہ میں حماس کی جانب سے اپنے دشمنوں کو زیر کرتے ہوئے تسلط قائم کرلینے کے بعد سے اسرائیل اور مصر نے غزہ کو زمینی، سمندری اور فضائی طور پر محصور کر دیا تھا اور اس اقدام کو خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش قرار دیا تھا۔