ملک گیر احتجاجی کیمپس کا انعقاد، ڈان گروپ سے یکجہتی کا اظہار
اسلام آباد: پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کی کال پر صحافیوں، سیاستدانوں، وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان کی بڑی تعداد نے ملک بھر میں لگائے گئے احتجاجی کیمپس میں شرکت کر کے ڈان اخبار اور ڈان نیوز سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
اس ضمن میں پی ایف یو جے آج (12 جولائی بروز جمعرات) سینیٹ کارروائیاں کی کوریج کا بھی بائیکاٹ کرے گی اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ آئین کے آرٹیکل19 کی خلاف ورزی قرار
واضح رہے کہ افضل بٹ کی سربراہی میں پی ایف یو جے نے ڈان اخبار سے اظہار یکجہتی کے لیے اخبار کے دفاتر کے باہر 11 جولائی کو کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں روزنامہ ڈان کی ترسیل میں رکاوٹوں کا سلسلہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہے اور ہاکرز کو اخبار شہریوں تک نہ پہنچانے کی براہِ راست ہدایات دی جارہی ہیں، ہاکرز کو ڈان اخبار کی تقسیم کے دوران مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں اور جسمانی تشدد سے خوفزدہ کر کے ہراساں کیا جارہا ہے۔
اس ضمن میں انتظامیہ کی جانب سے نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اس صورتحال کا نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔
اسلام آباد کے احتجاجی کیمپ میں پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ ’یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ جب انٹر سروس پبلک ریلیشن کے ڈائریکٹر جنرل میڈیا بریفنگ کے دوران کہتے ہیں کہ میڈیا مالکان عوامی سطح پر اعلان کریں کہ انہیں دباؤ کا سامنا ہے اور اس ضمن میں صرف ڈان اخبار حوصلہ پیدا کرکے اقرار کرتا ہے کہ اسے دباؤ جھیلنا پڑھ رہا ہے‘۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ کی اطلاعات
افضل بٹ نے مطالبہ کیا کہ غیر اعلانیہ سینسرشپ کا سلسلہ رکنا چاہیے اور میڈیا کو مالکان کو تجویز دی کہ وہ آزادئ صحافت کے مسلمہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے گریز کریں۔
سینئر صحافی نصرت جاوید نے کہا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ میڈیا کو ہدایت پر عملدرآمد کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔
ٹی وی اینکر طلعت حسین کا کہنا تھا کہ ’ڈان اخبار قائد اعظم کا منصوبہ تھا اس پر قدغن دراصل قائد اعظم کے فرمودات پر پابندی کے مترادف ہے‘۔
اس حوالے سے صحافی مرتضیٰ سولنگی نے واضح کیا کہ عوام کو اخبار کے چناؤ کا پورا حق حاصل ہے، جو لوگ میڈیا پر پابندی کے خواہاں ہیں انہیں اپنے صنعتی امور پر توجہ دینی چاہیے اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو میڈیا کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق تفویض کریں، آج ہم ڈان آفس کے باہر بیٹھے ہیں لیکن ان کے گھروں کے باہر بیٹھیں گے‘۔
سینئر صحافی ناصر زیدی نے کہا کہ سینسرشپ کا آغاز قائداعظم کی حیات میں شروع ہو گیا تھا جب اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کہ ان کی 11 اگست 1947 والے دن کی تقریر اخبارات میں شائع نہ کی جائے لیکن صرف ڈان اخبار نے تقریر شائع کی۔
یہ بھی پڑھیں: صحافی برادری کا ڈان اخبار سے اظہار یکجہتی کیلئے کیمپ لگانے کا اعلان
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے کا کہنا تھا کہ ڈان اخبار قائداعظم کا تھا اور ایسے بند کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں کہ میڈیا پر خبر سینسر کرنے پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، جمہوریت کے بغیر آزاد میڈیا کا تصور ممکن نہیں۔
سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ڈان اخبار پر قدغن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی کہ آئی ایس پی آر کے تحت چلنے والے متعدد میڈیا ادارے بند کرائے جائیں تاکہ متعلقہ اتھارٹی باقاعدہ مانیٹرنگ کر سکے۔
انہوں سماجی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ عاصمہ جہانگیر کے مقصد کو لیکر دوبارہ اٹھیں۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ نے ڈان کے دفتر کے باہر اظہار یکجہتی کیمپ لگایا جہاں پر پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل ایوب جان سرہندی، کے یو جے صدر فہیم صدیقی اور ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس نے خطاب کیا۔
احتجاجی کیمپ لاہور، فیصل آباد، ملتان، پشاور، گلگت، حیدرآباد اور سکھر میں لگائے گئے۔
یہ خبر 12 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی