نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار کی ضمانت منظور
کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزم کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
شہر قائد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں راؤ انوار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ‘راؤ انوار کا نام نقیب قتل کیس میں زبردستی شامل کیا گیا، مقابلہ کے وقت راؤ انوار موقع پر موجود نہیں تھے‘۔
یہ بھی پڑھیں: ’نقیب اللہ کا قتل راؤ انوار کے اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا‘
اس پر مدعی کے وکیل کا کہنا تھا کہ مقابلہ بعد میں کیا گیا تو ملزمان کے قتل کی تصدیق پہلے کیسے کی جاسکتی ہے، راؤ انوار مقابلے کے وقت جائے وقوع پر موجود تھے۔
بعد ازاں عدالت نے راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر 5 جولائی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی اور سماعت 16 جولائی تک ملتوی کردی، جہاں کیس کے دیگر ملزمان کی ضمانت سے متعلق سماعت ہوگی۔
ثابت ہو گیا کہ میں بے قصور ہوں، راؤ انوار
دوسری جانب سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ثابت ہو گیا کہ میں بے قصور ہوں، مجھے بد نیتی کی بنیاد پر مقدمے میں ڈالا گیا اور کیس کو خراب کیا گیا، وقت آنے پر سب بتاؤں گا کس نے مجھے پھنسایا۔
انہوں نے کہا کہ مقدمے میں اٹھانے والوں کا ذکر ہے نہ مارنے والوں کا، پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ میں بے قصور ہوں اور میں جائے وقوع پر موجود نہیں تھا۔
راؤ انوار کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے ضمانت مل گی،99 گواہوں میں سے کسی نے میرا نام نہیں لیا، تاہم کیس کو خراب کیا گیا جس کی وجہ سے اصل ملزمان بھی بچ جائیں گے۔
سابق ایس ایس پی ملیر کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ بھی ویسا ہی کیا گیا جیسا مرتضیٰ بھٹو کیس میں ایک شخص کو پھنسانے کے لیے کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ استغاثہ یہ معلوم نہیں کر سکا کہ نقیب اللہ کو کب گرفتار کیا گیا۔
راؤ انوار معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، وکیل
ادھر راؤ انوار کی ضمانت منظور ہونے پر نقیب اللہ کے والد کے وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی ہے، راؤ انوار معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے جبکہ مقدمے کو خراب کرنے پر استغاثہ اور تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کی درخواست کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ہر طریقے سے مدد کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کو عدالتی ریمانڈ پر 2 مئی تک جیل بھیج دیا گیا
عدالت کی جانب سے راؤ انوار کی ضمانت درخواست منظور ہونے پر فیصل صدیقی نے کہا کہ ‘جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار جائے وقوع پر موجود تھے اور انہوں نے اس حوالے سے میڈیا کو بریفنگ بھی دی تھی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی اور استغاثہ کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کو بھی عدالت نے مسترد کیا جو کہ غیرقانونی ہے لہٰذا وہ فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر راؤ انوار کو رہائی ملی تو مقتول نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
اس موقع پر جرگے کے رہنما سیف کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ نقیب اللہ کا جنازہ یہاں سے اٹھا چکے ہیں، اس پورے معاملے میں تفتیشی افسر کا کردار شرمناک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی اس وقت محرومی محسوس کررہا ہے، راؤ انوار سابق صدر آصف علی زرداری کے بہادر بچے ہیں مگر ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ناامید نہیں، انصاف کے لیے ہم اعلیٰ عدالتوں میں جائیں گے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی مدعی کے وکیل کی جانب سے دراخواست دائر کی گئی تھی جس میں ‘نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کی گئی تھی‘۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ‘راؤ انوار جیل میں بھی بیٹھیں ہیں لیکن اس کے باوجود اہل خانہ کو دھمکی آمیز کالز موصول ہورہی ہیں اور اگر ملزمان بری ہو گئے تو ان کی جان کو خطرہ ہے‘۔
نقیب اللہ محسود کا قتل
خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو رواں سال جنوری میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔
اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش
نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
بعد ازاں 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔
جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔