ختم نبوت شق کی تبدیلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت کے حلف نامے کی شق میں تبدیلی کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ وزارت قانون نے جان بوجھ کر شق کو تبدیل کیا تاکہ احمدیوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔
ہائی کورٹ نے جسٹس شوکت عزیر صدیقی کی جانب سے تحریر کیا گیا 172 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دین اسلام اور آئین پاکستان مذہبی آزادی سمیت اقلیتوں کے تمام بنیا دی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے، ریاست پاکستان کے ہر شہری پر لازم ہے کہ و ہ اپنی شناخت درست اور صحیح کوائف کے ساتھ جمع کرائے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: ختم نبوت شق میں تبدیلی کیس کا فیصلہ محفوظ
جسٹس شوکت صدیقی نے فیصلے میں کہا کہ ’ملک کے ہر شہری کو اختیار ہے کہ وہ جان سکے کہ اہم عہدے کس مذہبی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کے پاس ہیں جن میں وہ افراد جو بچوں کے لیے نصاب تیار کرتے ہیں، جو افراد پالیسیاں بنا رہے ہیں ان میں آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حوالے سے بھی علم ہونا چاہیے، ہمارے سفیر جو ہمارے اسلامی نظریے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور سب سے اہم وہ جن کے ہاتھوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دفاع ہم نے دے رکھا ہے، ان سب کے مذہب کا ہمیں علم ہونا چاہیے اور یہ ریاست اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم وہ اسے پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی مسلم کو یہ اجازت نہیں کہ و ہ اپنی شناخت چھپائے، بد قستمی سے اس وا ضح معیار کے مطابق ضروری قانون سازی نہیں کی جاسکی جس کے نتیجے میں غیر مسلم اقلیت اپنی اصل شناخت چھپاکر ریاست کو دھوکہ دیتے ہو ئے خود کو مسلم اکثر یت ظاہر کرتی ہے جس سے نا صرف مسا ئل جنم لیتے ہیں بلکہ انتہائی اہم تقاضو ں سے انحرا ف کی راہ بھی ہموا ر ہو جا تی ہے۔
ختم نبوت کے حوالے سے شق میں تبدیلی پر عدالت کا کہنا تھا کہ وزارت قانون میں بل کو ڈرافٹ کرنے والوں نے جان بوجھ کر ایسا کرنے کی کوشش کی تاکہ احمدی کمیونٹی کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: الیکشن ایکٹ میں ترمیم پر بحث سے متعلق سینیٹ کی کارروائی کا ریکارڈ طلب
تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا یہ بیانیہ کہ سول سروس کے کسی سول آفیسر کی اس حوالے سے مز ید شناخت موجود نہیں، ایک المیہ ہے، یہ امر آئین پا کستان کی روح اور تقا ضوں کے منافی ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ ختم نبو ت کا معاملہ ہمارے دین کی اساس ہے، پارلیمنٹ ختم نبو ت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے، شنا ختی کارڈ، برتھ سرٹیفیکیٹ، انتخابی فہرستوں اور پاسپورٹ کے لئے مسلم اور غیر مسلم کی مذہبی شنا خت کے حوالے سے بیان حلفی لیا جائے، سرکاری، نیم سرکاری اور حساس اداروں میں ملازمت کیلئے بھی بیان حلفی لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری اور نادرا کوائف میں شناخت چھپانے والوں کی تعداد خوفناک ہے، نادرا اور محکمہ شماریات کے ڈیٹا میں قادیانیوں کے حوالے سے معلومات میں واضح فرق پر تحقیقات کی جائیں۔
انہوں نے حکم دیا کہ تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے کیلئے مسلمان ہونے کی شرط لازمی قرار دی جائے۔
مزید پڑھیں: ’عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ شناخت کا نہ ہونا آئین پاکستان کی روح کے منافی ہے، الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کی واپسی حکومت کی جانب سے احسن اقدام ہے۔
اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کے سربراہ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے انتہائی اعلیٰ رپورٹ مرتب کی ہے، رپو رٹ میں معاملے کے تمام پہلوؤں کا انتہائی جامعیت، دیانت داری اور دانش مندی کے ساتھ احا طہ کیا گیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اب یہ پار لیمان پر منحصر ہے کہ وہ اس معا ملے پر مزید غور کر ے۔