پاکستان

پیٹرولیم مصنوعات ٹیکس کیس: ’اگر اداروں کی رپورٹ میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے‘

عدالت ماہرین سے رائے لے گی اور پوچھے گی کہ قیمتوں کے تعین کا مکینزم کس طرح ہونا چاہیے، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
|

کراچی: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر اداروں کی رپورٹس میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز کے معاملے پر کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران سیکریٹری پیٹرولیم، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے ایم ڈی، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) عدالت میں پیش ہوئے، تاہم چیئرمین آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) پیش نہیں ہوئے، جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔

سماعت کے دوران عدالت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے پی ایس او، اوگرا اور وزارت پیٹرولیم کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ مسترد کردی۔

کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں عدالت آپ کی رپورٹ سے مطمئن نہیں، آپ کے ریکارڈ کی ماہرین سے تصدیق کرائیں گے، اگر آپ لوگوں کی رپورٹس میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

مزید پڑھیں: نگراں حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ

دوران سماعت ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ پاکستان میں پی ایس او سمیت 22 کمپنیز ہیں، جو پیٹرول درآمد کرتی ہیں، عالمی مارکیٹ کی قیمت کے مطابق 5 روز کا اوسط نکال کر قیمت کا تعین کرتے ہیں۔

ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ پیٹرول درآمد کرنے کے بعد اس پر مختلف ٹیکسز لگائے جاتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ پالیساں کون بناتا ہے؟ جس پر ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ پالیسی حکومت بناتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اوگرا کا کیا کام ہے؟ اس پر پی ایس او کے ایم ڈی نے بتایا کہ اوگرا پالیسی لاگو کراتی ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اوگرا سربراہ کہاں ہیں؟

اس دوران عدالت میں موجود اوگرا نمائندے نے بتایا کہ ایم ڈی اوگرا اسلام آباد میں مصروف ہیں، کل سے وہ بیرون ملک روانہ ہوجائیں گی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے انہیں بلایا تھا انہیں اسلام آباد نہیں یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ ایم ڈی اوگرا بننے کے لیے ان کی اہلیت کیا ہے؟ جس پر اوگرا کے نمائندے نے بتایا کہ ایم ڈی اوگرا بننے سے قبل وہ چند ماہ تک ایم ڈی سوئی نادرن کے عہدے پر تعینات تھیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ڈیلرز کے کمیشن کے تناسب میں فرق پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ سب ڈیلرز اور اداروں کی اجارہ داری ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کراچی والوں پر ٹرانسپورٹیشن چارجز کیوں لاگو کرتے ہیں، یہ پالیسیاں کون بنا رہا ہے، اس پر ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ یہ پالیساں اوگرا بناتا ہے۔

اس دوران عدالت میں موجود اوگرا کے نمائندے نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اوگرا پالیساں بناتا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے طریقہ کار سے متعلق تمام پالیسیاں حکومت بناتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر ادارہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوام پر کچھ ترس کھانا سیکھیں، آپ لوگوں نے ڈیلرز کے ساتھ مل کر پریشان کر رکھا ہے، تمام پیٹرول پمپس بااثر لوگوں نے کھول رکھے ہیں۔

دوران سماعت سیکریٹری پیٹرولیم عارف خان نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس خطے میں پاکستان میں پیٹرول سستا ہے جبکہ بھارت میں بھی اس سے مہنگا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ بھارت کو چھوڑ دیں، بھارت کا موازنہ کیوں کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے یہ بتائیں پاکستان کے لوگوں کو کیا فائدہ پہنچایا جارہا ہے؟ بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کی کرنسی اور پاکستان کی کرنسی میں بڑا فرق ہے، اس کرنسی کے فرق کے بعد بھی خطے میں سب سے زیادہ پیٹرول سستا ہو سکتا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکریٹری پیٹرولیم سے استفسار کیا کہ ابھی جو پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں وہ کیسے بڑھائیں؟ جس پر سیکریٹری پیٹرولیم نے جواب دیا کہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں 12 روپے کا فرق تھا، گزشتہ حکومت نے قیمتیں بڑھانے سے انکار کیا تھا، تاہم نگراں وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی کہ ایک دم 12 روپے بڑھانے سے مسائل پیدا ہوں گے، لہٰذا 6 روپے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب ںثار نے کہا کہ عدالت ماہرین سے بھی رائے لے گی اور پوچھے گی کہ قیمتوں کے تعین کا مکینزم کس طرح ہونا چاہیے، یہاں جتنے اداروں کے نمائندے موجود ہیں ذمہ داریاں ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائیں، جس کی وجہ سے بوجھ نگراں حکومت پر آیا۔

سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ خسارہ کم کرنے کے لیے مزید قیمت بڑھائی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ شہریوں پر مزید عذاب ڈالیں گے، جس کا دل چاہتا ہے ٹیکس عائد کر دیتا ہے، عدالت محصولات اور قیمتوں کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دے دیا

سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اب بھی خطے میں سب سے کم ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات میں بہت مرتبہ سن چکا ہوں، کہا جاتا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں قیمتیں کم ہیں، بھارت کے ڈالرز کی قیمت بھی تو دیکھیں، بھارت اچھا کر رہا ہے یا برا، آپ کیا کر رہے ہیں؟

اس موقع پر عدالت نے 10 روز میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے لیے متعلقہ اداروں سے تجاویز طلب کرلی، اس کے علاوہ ایم ڈی اوگرا سمیت متعلقہ محکموں کے سربراہان کی تعلیم اور تعیناتی کے طریقہ کار کے متعلق بھی تفصیل طلب کی گئی۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ رپورٹ میں قیمتیں طے کرنے کا مکمل مکینزم بھی پیش کیا جائے، بعد ازاں عدالت نے 5 جولائی تک سماعت ملتوی کردی۔