پاکستان

سابق چیف جسٹس سے بدسلوکی، سزا یافتہ پولیس افسر نے معافی مانگ لی

فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کی نگاہ مستقبل پر مرکوز ہوتی ہے تاکہ کوئی 100 سال تک بھی توہینِ عدالت کی ہمت نہ کرسکے، عدالت

اسلام آباد سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سے بدتمیزی کرنے پر توہین عدالت کا سامنا کرنے والے پولیس افسر نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے میں ناک رگڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس کے خلاف بدسلوکی کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی جس میں سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس چوہدری افتخار کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈاکٹر خالد رانجھا نے اپنے موکل کے حوالے سے بتایا کہ سابق آئی جی اسلام آباد عدالت سے ہاتھ جوڑ کر اور کان پکڑ کی معافی مانگتے ہیں، بلکہ اس کے لیے وہ ناک رگڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت نے ریماکس دیئے کہ عدالت ملزم کے وکیل کی جانب سے پنجابی زبان میں پیش کی گئی دلیل کو سمجھ چکی ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ توہینِ عدالت کے تمام ملزمان کا انٹرا کورٹ اپیل سنانے کے وقت عدالت میں موجود ہونا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: وکلاء کا سابق چیف جسٹس کی حراست کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 13 مارچ 2007 کو اس وقت کے چیف جسٹس کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے کیس میں سزایافتہ وفاقی انتظامیہ اور پولیس کے سابق سینئر افسران کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی تھی۔

مذکورہ اپیلیں یکم نومبر 2007 کے سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف دائر کی گئی تھیں جس عدالتِ عالیہ نے اسلام آباد پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے سینئر حکام کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر سزا سنائی تھی۔

یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال پر وضاحت دینے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل جارہے تھے، اور اس دوران وفاقی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ انیہں روکنے کی کوشش کرتے ہوئے بدسلوکی کی گئی تھی۔

تاہم اس اعلان کے فوری بعد ملزمان کی جانب سے اپیل دائر کیے جانے کی گزارش پر سزا کو 15 دن کے لیے منسوخ کردیا گیا تھا۔

اسلام آباد کے سابق چیف کمشنر خالد پرویز اور ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد علی کو عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا سنائی گئی تھی اور سابق انسپکٹر جنرل پولیس چوہدری افتخار احمد اور ایس ایس پی ظفر اقبال کو 15 دن جیل اور ڈی ایس پی جمیل ہاشمی، انسپیکٹر رخسار مہدی اور اے ایس آئی محمد سراج کو ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

بعد ازاں 10 رکنی بینچ نے متعلقہ محکموں پر ملزمان کے خلاف اپیلوں کے زیر التواء ہونے تک کارروائی کرنے سے روک دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افتخار چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق آئی جی کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ ملزم کی جانب سے معافی طلب کرنے کے طریقہ کار کو وضع کریں اور اسے بہتر انداز میں پیش کریں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریماکرس دیئے کہ حال ہی میں عدلیہ کی توہین سے متعلق کیس کو حکومتی اعلیٰ شخصیات کی جانب سے نظر انداز کیا گیا اور جب انہیں عدالت میں مدعو کیا گیا تو انہوں نے معافی ہی طلب کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ملزم کو حقیقی طور پر توہینِ عدالت کی پشیمانی ہے تو پھر اسے چاہیے کہ وہ اپنی ملازمت کو خیرباد کہتے ہوئے کہے کہ اس نے واقعی غلطی کی ہے اور وہ اپنی ملازمت پر رہنے کا حق دار نہیں ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں ملزم نے فردِ جرم عائد ہونے اور فیصلہ آنے کے بعد معافی مانگی۔

مزید پڑھیں: افتخار چوہدری نے اپنی سیاسی جماعت بنالی

قائم مقام چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ جب عدالت کے سامنے توہینِ عدالت کے کیسز لائے جاتے ہیں تو ایسے کیسز کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کی نگاہ مستقبل پر مرکوز ہوتی ہے تاکہ فیصلے کو دیکھ کر آئندہ 100 سال تک بھی کوئی توہینِ عدالت کی ہمت نہ کرسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ توہینِ عدالت میں اب تک کی سب سے بڑی توہین سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ بد تمیزی تھی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریماکس دیے کہ اگر ملزم اپنی معافی کی سنجیدگی پر عدالت کو مطمئن کر لیتا ہے تو پھر اس کی درخواست قبول کی جاسکتی ہے۔