پاکستان

’ممبئی حملوں پر بیان کے بعد کی صورتحال میں نواز شریف کے ساتھ ہوں‘

بھارتی میڈیا نے نواز شریف کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا، سول ملٹری تعلقات پہلے جیسے ہی ہیں، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی
| |

اسلام آباد: وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ بطور وزیراعظم وہ ممبئی حملوں کے حوالے سے بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں سابق وزیرِاعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کے ساتھ ہیں۔

وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے بیان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی میڈیا نے سابق وزیراعظم کے بیان کا فوج اور غیر ریاستی عناصر سے متعلق حصہ توڑ مروڑ کر پیش کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نواز شریف نے کہا ہے کہ 12 مئی کے انٹرویو میں حقائق مسخ کر کے پیش کیے گئے ہیں‘۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ نواز شریف خود اپنے بیانات کی وضاحت پیش کیوں نہیں کرتے تو ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہوگا کہ یہ سوال ان سے ہی پوچھا جائے۔

شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نے کہا کہ نہ تو ایسی بات کی نہ ہی مفروضے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’سول ملٹری تعلقات پہلے جیسے ہی ہیں، 31 مئی رات 12 بجے تک حکومت رہے گی، میں استعفیٰ نہیں دوں گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سول ملٹری تعلقات ویسے ہی ہیں جو جمعہ کے روز تھے یہ خراب بھی ہوتے ہیں اور ٹھیک بھی ہوتے رہتے ہیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں مذمت نواز شریف کے بیان کی نہیں، بلکہ غلط رپورٹنگ کی گئی تھی۔

انہوں نے واضح کیا کہ بھارتی میڈیا نے معاملے کو غلط رنگ دیا، ہمیں اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ 13 مئی کو انہوں نے ہی کیا تھا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آج بھی آپ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں، تو ان انہوں نے کہا کہ ‘نواز شریف میرے قائد ہیں اور میں ان کے ساتھ آج بھی کھڑا ہوں‘۔

وزیراعظم نے بتایا کہ ’نواز شریف نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین کبھی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی‘۔

خیال رہے کہ وزیراعظم نے اپنی مذکورہ پریس کانفرنس میں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ملاقات اور اس سے قبل ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات سے صحافیوں کو آگاہ کیا، تاہم سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی پر اسے براہِ راست نشر نہیں کیا گیا۔

ممبئی حملوں سے متعلق نواز شریف کا بیان اور اپوزیشن کا ردِ عمل

یاد رہے کہ نواز شریف نے ممبئی حملوں پر راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر مقدمے کے حوالے سے کہا تھا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنھیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں ان کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل ناقابل قبول ہے یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، یہ بات روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر ژی جنگ نے بھی کہی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بیان کو غداری سے منسوب کرتے ہوئے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔

دوسری جانب سے مسلم لیگ (ن) کے ترجمان نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی قائد کے بیان کو بھارتی میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور بدقسمتی سے پاکستان الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ایک حلقے نے بھارتی پروپیگنڈے کی توثیق کردی۔

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، ممبئی حملوں سے متعلق بیان بے بنیاد قرار

خیال رہے کہ پاک فوج کی ‘تجاویز’ پر ممبئی حملوں کے حوالے سے میڈیا میں 'گمراہ کن' بیانات پر مشاورت کے لیے 14 مئی کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر میں جاری بیان میں کہا تھا کہ ‘میڈیا میں ممبئی حملوں کے حوالے سے چلنے والے گمراہ کن بیان پر مشاورت کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں پیر کی صبح قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی تجویز دی گئی تھی’۔

میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے کسی میڈیا کے بیان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے تاہم یہ تجویز سابق وزیراعظم نواز شریف کے ڈان کو ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں پر دیئے گئے بیان پر میڈیا میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوا ہے۔

14 مئی کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی جانب سے ممبئی حملوں سے متعلق بیان کو متفقہ طور پر گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

اعلامیے کے مطابق شرکا نے الزامات کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیرِاعظم کے بیان سے جو رائے پیدا ہوئی ہے وہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔