دنیا

لبنان الیکشن: کیا حزب اللہ واضح اکثریت حاصل کر پائے گی؟

غیرحتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق سعودی عرب کے حمایت یافتہ سعد حریری کو انتخابات میں واضح نقصان اٹھانا پڑا۔

لبنان میں حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور ان کے اتحادیوں نے واضح کامیابی حاصل کرلی جبکہ مغرب کے حمایت یافتہ وزیر اعظم سعد حریری کی پارٹی فیوچر موومنٹ کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ ’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق غیر سرکاری نتائج کے مطابق سعد حریری، جن کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہیں، نے بیروت میں 5 نشستیں کھو دیں جسے ان کی جماعت کا مضبوط ترین حلقہ تصور کیا جاتا تھا۔

یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ لبنان کے پڑوسی ملک شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث ملک کی معیشت کے استحکام سے متعلق عوام کی پریشانی بڑھ گئی ہے اور ریاست کے سنی ووٹرز اب سعد حریری کی جماعت پر بھروسہ نہیں کر رہے۔

مزید پڑھیں: لبنان میں 2009 کے بعد پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے انتخابات

واضح رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباً 10 لاکھ پناہ گزینوں نے لبنان کا رخ کیا تھا۔

تاہم سعد حریری کے پاس نقصانات کے باوجود پارلیمنٹ کا بڑا حصہ موجود ہے جو ان کے دوبارہ وزیر اعظم بننے اور حکومت بنانے میں مدد کرسکتا ہے۔

خیال رہے کہ سرکاری نتائج کا اعلان وزیر داخلہ نوہاد مچنوک کی جانب سے کیا جانا باقی ہے۔

لبنان کی آئندہ حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح ایک اتحادی حکومت قائم کرے گی جس میں سعد حریری کے لیے حزب اللہ سے تعاون حاصل کیا جائے گا۔

حزب اللہ اور ان کے اتحادیوں کو 128 نشستوں کی پارلیمنٹ میں 47 نشستیں حاصل ہوگئی ہیں جس کے ذریعے وہ کسی بھی قانون مخالفت کیلئے ویٹو کا حق استعمال کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لبنان سے 500 شامی مہاجرین کی وطن واپسی

9 سال کے بعد ہونے والے انتخابات میں ٹرن آؤٹ بھی پچھلے انتخابات سے کم رہا جو ووٹرز میں موجود غصے کی عکاسی کرتا ہے۔

نوہاد مچنوک کے مطابق قومی سطح پر ٹرن آؤٹ 49 فیصد رہا جو 2009 میں ہونے والے انتخابات میں 54 فیصد تھا جبکہ صرف بیروت میں ٹرن آوٹ 32 فیصد تھا جو پچھلے الیکشن میں 42 فیصد تھا۔

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق سول سوسائٹی کے دو امیدواروں نے بھی پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کیں۔

یہ دونوں خواتین امیدوار صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں جو لبنان کی سیاست کے لیے انتہائی اہم پیش رفت ہے کیوں کہ دونوں کا تعلق کسی سیاسی جماعت یا مذہبی رہنما سے نہیں۔

انتخابات میں اصل مقابلہ مغرب اور سعودی حمایت یافتہ سعد حریری اور تہران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کے درمیان تھا۔

مزید پڑھیں: حزب اللہ کا سعودی عرب پر لبنانی وزیرِاعظم کی گرفتاری کا الزام

یاد رہے کہ 2011 میں شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا جس کی وجہ سے تقریباً 10 لاکھ پناہ گزین شام سے ہجرت کرکے لبنان آئے تھے جس کے بعد لبنان میں یہ پہلے انتخابات کرائے گئے۔

یاد رہے کہ لبنان ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی کل آبادی تقریباً 45 لاکھ ہے۔

اس جنگ سے لبنان تقسیم ہوگیا تھا کیونکہ حزب اللہ اور ان کی اتحادی جماعتیں شام کے صدر بشار الاسد کی حامی ہیں جبکہ سعودی عرب کی حمایت یافتہ جماعتیں ان کی مخالف تھی۔