‘تنخواہ دار ملازمین کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں‘
راولپنڈی: مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے مسلم لیگ (ن) حکومت کی جانب سے جاری کردہ بجٹ کو تنخواہ دار ملازمین کے لیے پریشان کن جبکہ صنعت کاروں کےلیے مفید قرار دیا ہے۔
گورنمنٹ کالج کے لیکچرار محمود ملک کا کہنا ہے کہ حکومت نے ملازمین کی تنخواہ میں معمولی اضافہ کیا لیکن گزشتہ 10 برسوں سے جاری رینٹ الاؤنس میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
یہ پڑھیں: وفاقی بجٹ 19-2018 سے متعلق ماہرین کیا کہتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ماچس کا ڈبہ خریدنے پر بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی آمدنی میں سے سالانہ 98 ہزار روپے انکم ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔
شہزاد فاروق قریشی نے بجٹ 18-2017 کو اعداد وشمار کی پہیلی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوامی بجٹ فراہم کرنے میں ناکام رہی اور غیرمتعلقہ ٹیکس کا نفاذ کیا گیا۔
پراپرٹی ڈیلر بابر حسین نے موقف اختیار کیا کہ ‘نان فائلرز پر 40 لاکھ روپے سے زائد اراضی خریدنے پر پابندی سے رئیل اسٹیٹ کا شعبہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائےگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے راولپنڈی ڈویژن کے صدر بابر جدون نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے لیے کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا اور سرکاری ملزمین کو 10 فیصد عارضی ریلیف دینا مزاق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کے بجٹ پر تاجروں کا اظہار اطمینان
جماعت اسلامی کے رہنما ملک اعظم نے واضح کیا کہ ‘بجٹ عوام مخالف ہے اور اس میں کوئی نئی بات نہیں، حکومت نے جی ایس ٹی کو ختم کرنے کے بجائے اس میں وسعت کی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مزدور طبقے کی کم از کم تنخواہ 14 ہزار روپے مقرر کی گئی جبکہ ایسے 28 ہزار روپے ہونا چاہیے تھی’۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق ضلعی ناظم راجا طارق محبوب کیانی نے بجٹ کو ٹیکس دہندگان کے لیے اضافی بوجھ قرار دیا۔
راولپنڈی چیمبر آف کامرس (آر سی سی آئی) نے بجٹ کو متوازن قرار دیا تاہم بعض تاجروں نے اگلے مالی سال کے لیے متخص ریونیو کے حوالے سے تحفطات کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: 4 ماہ کے لیے بجٹ پیش کرنا ٹھیک ہے یا پورے سال کا؟ ماہرین کی رائے
آر سی سی آئی کے صدر زاہد لطیف خان نے کہا کہ بجٹ میں متعدد فیصلے خوش آئند ہیں تاہم اس حوالے سے بھرپور ردعمل کا اظہار فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آّف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے اجلاس کے بعد ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان لینڈ ریونیو کمشنرز اور ٹیکس آڈیٹنگ کے اختیارات میں کمی قابل تعریف عمل ہے۔
اس حوالے سے زاہد لطیف نے واضح کیا کہ کھاد اور زرعی آلات کی ڈیوٹی میں کمی اور سبسڈی کے اعلان سے زرعی شبعے کو ترقی ملے گی۔
تاہم نان فائلرز سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نان فائلرز کے حوالے سے حکومتی فیصلے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اس طرح ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور اقتصادی امور میں بہتری آئے گی’۔
زاہد لطیف نے حکومت کی جانب سے ہایئر ایجوکیشن کے لیے 57 ارب روپے مختص کرنے پر تحفظات کااظہار کیا اور کہا کہ صنعتی شعبوں میں ملک کو پیشہ وارانہ اعتبار سے مضبوط لوگ چاہیے۔
یہ خبر 28 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی