پشاور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے صوبے کے عوام کو صاف پانی کی فراہمی اور صنعتی فضلے کو ٹھکانے لگانے سے متعلق اقدامات میں ناکامی خیبر پختونخوا حکومت کی سرزنش کی۔
سپریم کورٹ کی پشاور رجسٹری میں چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو عدالت میں پیش ہونے اور کوتاہیوں کے پیچھے وجوہات بتانے کا حکم دیا تھا۔
پرویز خٹک سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے جہاں چیف جسٹس نے انہیں بتایا کہ انہوں نے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا دورہ کیا، جہاں معاملات میں انہیں کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔
انہوں نے پرویز خٹک سے سوال کیا کہ ’کیا آپ کو معلوم ہے پشاور کی آبادی کتنی ہے اور ندیوں میں کتنا کچرا بہہ رہا ہے؟‘ جس پر وزیر اعلیٰ خاموش رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’شہریوں کو مطمئن کرنا آپ کی ذمہ داری ہے جس میں آپ ناکام رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ان دنوں 2 روزہ دورے پر پشاور میں موجود ہیں اور اس دوران وہ مختلف اہم مقدمات کی سماعت کریں گے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کئی دعوے کرتی ہے لیکن وزیر اعلیٰ بتائیں اس حکومت کے گزشتہ پانچ سال کے طویل عرصے کے دوران صوبے میں کتنے نئے اسکول اور ہسپتال تعمیر کیے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا جاتا ہے لیکن ووٹ کی اصل عزت عوام کی خدمت کرنا ہے۔‘
صوبائی وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر اپنی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی پارٹی کی حکومت آنے سے قبل صوبے میں اسکول اور ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر ہچکولے کھا رہا تھا، جس میں اب بہتری آچکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ آپ 4 سال پہلے آتے تو تب بھی دیکھتے، ہمارے اقدامات کے نتائج 4، 5 سال بعد آئیں گے۔‘
تاہم چیف جسٹس نے پرویز خٹک کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ہر طرف سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے دورے سے ایک ہفتے قبل پشاور میں صفائی ستھرائی کی گئی۔
قبل ازیں سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے متفرق کیسز کی سماعت کی، اس دوران چیف سیکریٹری اور سیکریٹری صحت عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ صوبے میں 5 سال سے پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں ہے اور یہی بتا سکتی ہے کہ انہوں نے شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے۔
چیف جسٹس نے صوبائی چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ ’پشاور کی گندگی آپ کس کینال میں پھینکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے شہر میں کوئی ڈمپنگ گراؤنڈ کیوں نہیں ہے؟‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ سیوریج کا پانی کینال اور دریاؤں میں ڈالنے سے متعلق عدالت کو آگاہ کریں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں کہ یہاں سب ٹھیک ہے، کیا یہی گڈ گورننس ہے؟ اس دوران میاں ثاقب نثار نے حکم دیا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا عدالت میں پیش ہوں، وہ جب بھی یہاں آئیں ہم رات دو بجے تک یہی بیٹھے ہیں۔
دوسری جانب چیف جسٹس نے ہسپتال کے فضلے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کراچی اور لاہور کے ہسپتالوں کے حالات بہتر بنا دیئے، اب سیکریٹری صحت بتائیں کہ خیبرپختونخوا میں کیا صورتحال ہے۔
اس پر سیکریٹری صحت نے بتایا کہ صوبے میں کل 1570 ہسپتال ہیں، جن میں سے دو اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ شام تک صوبے میں صحت کی سہولیات سے متعلق تفصیلات پیش کی جائیں۔