دنیا

کشمیری لڑکی کے ریپ اور قتل کے واقعے نے بھارت کا سر شرم سے جھکا دیا، مودی

بھارت کی سپریم کورٹ نے ہندو قوم پرستوں کے وکیل کو کشمیر میں قانونی کارروائی میں رکاوٹ بننے سے باز رہنے کا حکم جاری کردیا

نئی دہلی: بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وفادار اور وزیروں کی جانب سے تحفظ پانے والے 8 سالہ بچی کے اغوا کے بعد گینگ ریپ میں ملوث ملزمان کے خلاف بھارت میں آوازیں اٹھنے لگیں۔

بھارت میں اپوزیشن جماعتوں اور کانگریس کے صدر راہول گاندھی کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اس واقعے پر بیان جاری کیے جانے کے مطالبے کے بعد وزیر اعظم نے واقعے کو معاشرے کے لیے شرم ناک قرار دیا۔

اپوزیشن جماعتوں نے نریندر مودی سے کشمیر میں نفرت کی فضا اور اتر پردیش میں بی جے پی کے ایم ایل اے کی جانب سے بچی کے مبینہ ریپ پر بیان جاری کرنے کا کہا تھا۔

ریپ کا شکار ہونے والی بچی کے والد پولیس نے پولیس کسٹڈی میں ایم ایل اے کے رشتہ داروں اور پولیس کی جانب سے تشدد کیے جانے سے ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری بچی آصفہ کے’ریپ‘ اورقتل کوسیاسی رنگ دینے پربولی وڈ نالاں

سپریم کورٹ نے اتر پردیش میں بی جے پی کے زیر انتظام میں چلنے والی ریاستی انتظامیہ کو ملزم کی پشت پناہی پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے ہندو قوم پرستوں کے وکیل کو کشمیر میں قانونی کارروائی میں رکاوٹ بننے سے باز رہنے کا حکم جاری کیا۔

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی کے مطابق اس جرم کا منصوبہ سابق ریوینیو حکام نے بنایا جو کشمیر میں کاٹھوا کے علاقے رسانہ میں مسلمان برادری کو لڑکی کے ذریعے بھگانا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 جنوری کو جامنی رنگ کا لباس پہنی بچی اپنے ایک کمرے کے گھر کے پاس گھوڑوں کو چراہ رہی تھی کہ 19 سالہ ملزم نے اسے گمشدہ گھوڑے کی تلاش کا جھانسہ دے کے جنگل کی طرف بلایا بعد ازاں جنگل سے گھوڑا تو واپس آگیا لیکن بچی واپس نہ آسکی تھی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان نے بچی کو گاؤں کے ایک چھوٹے سے مندر میں لے کر گئے اور نشہ آور چیزیں کھلائیں۔

انہوں نے بتایا کہ 3 دن تک ملزمان اور دیگر دو گینگ میمبر نے بچی کے ساتھ گینگ ریپ کیا اور اسے کھانا تک نہ دیا جس کے بعد بھاری پتھر سے اس کے سر پر وار کیے اور گلا بھی دبایا جس سے وہ تڑپتے سسکتے چل بسی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان میں سے ایک شخص نے انہیں آخری بار ریپ کرنے سے روکنے کی بھی کوشش کی تھی۔

بچی کی لاش 17 جنوری کو جنگلوں میں سے ملی تھی۔

تحقیقات نے پولیس کو 19 سالہ لڑکا جو اکثر لڑکی کو گھوڑے چرواہتے ہوئے دیکھا کرتا تھا اور اس کے چچا سانجی رام جو مندر کے منتظم تھے جہاں پولیس کو فارنزک شواہد ملے تھے، تک پہنچایا۔

مزید پڑھیں: بھارت: کشمیر میں بچی کا ریپ اور قتل مذہبی رنگ اختیار کرگیا

ملزمان میں سے ایک سانجی رام سابق حکومتی ملازم تھا جس نے گھناؤنے جرم کا منصوبہ بنایا تھا، مذکورہ شخص کے پاس سے بڑی تعداد میں رشوت سے کمائی ہوئی رقم بھی بر آمد ہوئی تھی۔

سانجی رام کو نوجوان لڑکے کے اعتراف جرم اور فارنزک رپورٹ اور مختلف ملزمان سے کی گئی تفتیش سے ملنے والی معلومات کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس چارج شیٹ کے مطابق بچی کو قتل کرنے سے قبل آخری مرتبہ ریپ کا نشانہ بنانے کی خواہش رکھنے والا اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریا تھا۔

اس کا نام بھی نوجوان کے پولیس کو دیے گئے بیان میں شامل تھا جبکہ کال ڈیٹا کے ریکارڈ کے مطابق بھی وہ بچی کو قید کیے جانے کے مقام پر موجود تھا۔

ایک اور ملزم اسپیشل پولیس افسر سرندر کمار ہے، گواہان نے اسے جائے وقوع پر دیکھا اور کال ڈیٹا ریکارڈ نے بھی ملزم کی وہاں موجودگی کو ثابت کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ثانیہ مرزا کو مسلمان بچی کی حمایت کرنے پر پاکستانی ہونے کا طعنہ

نوجوان نے اپنے دوست پرویش کمار کے حوالے سے بتایا کہ اس نے بچی کو بار بار ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔

سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترہ کو فارنزک ٹیسٹ کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔

پولیس چارج شیٹ میں بتایا گیا کہ وشال میرٹھ میں زیر تعلیم تھا اور نوجوان کے فون کال پر وہ کاٹھوا پہنچا، نوجوان نے اسے اپنی خواہشات پورا کرنے کے لیے بلایا تھا۔

کیس میں شامل دیگر دو ملزمان اس واقعے کے حوالے سے جانتے تھے اور انہوں نے اسے خفیہ رکھنے میں مدد کے لیے بڑی تعداد میں رشوت لے رکھی تھی۔

چارج شیٹ میں کہا گیا کہ سب انسپیکٹر انند دتہ اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج نے ضروری شواہد جمع کرنے سے قبل ہی لڑکی کے کپڑے دھو دیے تھے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 14 اپریل 2018 کو شائع ہوئی