پاکستان

واٹر کمیشن کا 200 مسلمان خاکروبوں کو فارغ کرنے کا حکم

سپریم کورٹ کے کمیشن نے کراچی ميں کچرہ مکمل صاف کرنے کا حکم بھی جاری کردیا۔

کراچی: سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کی گئی واٹر کمیشن نے 200 مسلمان خاکروبوں کو برطرف کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کراچی ميں مکمل کچرہ مکمل صاف کرنے کا حکم دے ديا۔

واٹر کمیشن میں جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سماعت ہوئی۔

واٹر کمیشن میں سماعت کے دوران مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) سائیٹ، ایس ایس پی ویسٹ، چینی کمپنی کے نمائندہ، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ حکام، کراچی کی تمام ڈسٹرکٹ مینسپل کورپوریشن (ڈی ایم سیز) کے چئیرمینز پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں چیئرمین ڈی ایم سی وسطی ریحان ہاشمی نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے پاس کچرا اٹھانے کی مشینری نہیں، ہمیں سالڈ ویسٹ منیجمنٹ پر شدید اعتراض تھا جسے انتہائی مجبوری میں ان کی جانب سے قبول کیا گیا۔

جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ آپ کی مجبوریاں کیا ہیں، سندھ حکومت سے آپ کے کیسے تعلقات ہیں یہ کمیشن کا مسئلہ نہیں مسئلہ یہ ہے کہ ضلع وسطی میں ہر جگہ کچرا ہی کچرا ہے اور 1200 جھاڑو دینے والے ییں، بتائیں کہ ان میں سے کتنے مسلمان ییں؟

ریحان ہاشمی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ضلع وسطی میں 200 مسلمان جھاڑو دینے والے ہیں جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کیا مسلمان گٹر صاف کرتے ہیں؟

ریحان ہاشمی کے منفی جواب پر چیف جسٹس نے احکام جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فوری نکال دیں۔

جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ سیاسی بھرتیاں ہوں گی تو معاملات خراب ہوں گے، خاکروبوں کی پوسٹ پر مسلمان کیسے بھرتی ہوئے، وسطی میں جا کر دیکھیں, کہیں صفائی نہیں ہے۔

سیکریٹری بلدیات محمد رمضان نے عدالت کو بتایا کہ ڈی ایم سیز کے 50 فیصد ملازمین نوکری پر آتے ہی نہیں جبکہ کراچی میں سیاسی بھرتیاں بھی ہیں اور وائٹ کالر سوئیپرز بھرتی کیے ہوئے ہیں۔

چیئرمین وسطی کا کہنا تھا کہ سیوریج کے باعث سڑکیں تباہ ہو رہی ہیں، کچرا نہ اٹھانے پر لوگ سڑکوں پر کچرا پھینک رہے ہیں۔

ڈی ایم سیز فنانس کے عہدے داران کا کہنا تھا کہ ملازمین کی سالانہ تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے مگر دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

سیکریٹری بلدیات نے انکشاف کیا کہ ڈی ایم سیز کے 13 ہزار ملازمین میں سے 1380 ملازمین جعلی نکلے جس پر کمیشن نے استفسار کیا کہ آپ ان جعلی ملازمین کو نکالتے کیوں نہیں ہیں۔

سماعت کے دوران کچرا اٹھانے کے معاملے پر کمیشن نے استفسار چینی کمپنی سے استفسار کیا کہ ضلع جنوبی میں چائنیز کمپنی کی کارکردگی صفر ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کچرا اٹھانے والی کتنی گاڑیاں ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 90 گاڑیاں کچرا اٹھا رہی ہیں۔

کمیشن نے سوال کیا کہ یہ 90 گاڑیاں کہاں ہیں، ان کی تفصیلات پیش کریں اور بتائیں کہ یہ گاڑیاں کب کہاں سے کچرا اٹھاتی ہیں۔

سیکرٹری بلدیات بھی محمد رمضان چایئنز کمپنی کے خلاف کہا کہ یہ ایجنٹ ہیں، اصل مالکان پتہ نہیں کہاں ہیں۔

کمیشن نے کچرا اٹھانے والی کمپنی کی ادائیگی بند کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کمپنی کے مالک کو کہیں کل پیش ہوں۔

چائینیز کمپنی نے کو بتایا کہ ڈی ایم سیز ملازمین صرف دو گھنٹے کام کرتے ہیں اور تنخواہ پوری مانگتے ہیں اور ان ملازمین کے پیچھے یونین کا ہاتھ ہے۔

کمیشن نے 5 اپریل تک تمام معاملات حل کرنے کی متعلقہ حکام کو ہدایت کردی۔

کمیشن میں پانی چوری کے معاملہ پر ایس پی غربی کا کہنا تھا کہ جہاں پانی کی لائن بچھائی جاتی ہے ایس ایچ او ہلتا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم واٹر بورڈ حکام سے کہتے ہیں کہ پانی چوری کرنے والوں کے خلاف مدعی بنیں تو وہ انکار کردیتے ہیں۔

سیکریٹری بلدیات کا کہنا تھا کہ جو پانی چوری کررہے ہیں, پولیس کو تحقیقات کی ہدایت دی جائےخواہ وہ واٹر بورڈ یا سندھ حکومت کے ملازمین ہی کیوں نہ ہوں۔

پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں ترقیاتی کاموں میں گھپلوں کا معاملہ جسٹس ر امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن اور بے قاعدگیوں کی انتہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کام شروع کرنے سے قبل ہی ادائیگیاں کیسے کی جائے رہی ہیں، کیوں نہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ افسران کو جیل بھیج دیں۔

بعد ازاں کمیشن کی کارروائی 5 اپریل کے لیے ملتوی کردی گئی۔