راولپنڈی کے حساس علاقے میں صحافی کی ٹارگٹ کلنگ
راولپنڈی کے حساس ترین علاقے بینک روڈ پر نامعلوم افراد نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں صحافی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا اور موقع سے فرار ہو گئے۔
صحافی انجم منیر راجہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد گزشتہ روز موٹر سائیکل پر واپس گھر جا رہے تھے کہ تھانہ سول لائن کے علاقہ بینک روڈ پر نا معلوم موٹرسائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر دی، نامعلوم افراد نے صحافی پر نائن ایم ایم پسٹل کے چھ فائر کیے جو مقتول صحافی کے گردن، پیٹ اور سر پر لگے، فائرنگ کے باعث صحافی موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اور مقتول صحافی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کر دیا بعدازاں پوسٹ مارٹم مکمل ہونے پر صحافی کی لاش اس کے ورثا کے حوالے کر دی گئی۔
مزید پڑھیں: کراچی:'سادہ لباس افراد' کے ہاتھوں اغوا صحافی پوچھ گچھ کے بعد رہا
ڈی ایس پی سول لائنز کاظم نقوی نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ صحافی کو گزشتہ رات پونے 12 بجے کے قریب بینک روڈ پر قتل کیا گیا اور جس طرح صحافی کو قتل کیا گیا اس حوالے سے ابتدائی تفتیش کے مطابق مکمل پلاننگ کر کے صحافی کو ٹارگٹ کیا گیا جبکہ مقتول کی جیب میں پیسے، موبائل فونز و دیگر تمام چیزیں موجود تھیں۔
انہوں نے کہا کہ لگتا تو ایسے ہی ہے جیسے یہ واقعہ کوئی پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہو تاہم پولیس اپنی تفتیش مختلف زاویوں سے کر رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ بینک روڈ چونکہ حساس علاقہ ہے اور جی ایچ کیو سمیت دیگر ہوٹلز و محکموں کے دفاترز بھی موجود ہے اس لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کے لیے آرمی کو خط لکھ دیا گیا ہے، جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج ملنے کے بعد تفتیش مزید آگے بڑھ سکے گی۔
ڈی ایس پی نے بتایا کہ موقع سے نائن ایم ایم پسٹل کے چھ خول ملے ہیں اور مقتول کے ماموں کی مدعیت میں تھانہ سول لائنز پولیس نے مقدمہ کا اندراج کر لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں صحافی پر چاقو سے حملہ
مقتول صحافی کے ماموں طارق محمود راجہ نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھانجے کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی اس کو اتنے حساس علاقے میں قتل کیا گیا جہاں پر ہر طرف سخت سیکیورٹی تھی۔
مقتول صحافی کے ماموں نے سوال کیا کہ حساس علاقے میں صحافی کو چھ گولیاں مار کر نامعلوم افراد قتل کر کے جائیں اور پولیس سمیت کوئی ادارہ ملزمان کا سراغ نہ لگا سکی۔
طارق محمود نے مزید بتایا کہ مقتول صحافی کی عمر 40 سال تھی اور اس کا صرف ایک 5 سال کا بیٹا محمد علی ہے جبکہ عارضی طور پر میرا بھانجا ڈھیری حسن آباد میں رہائش پذیر تھا اور مصریال روڈ پر اپنا گھر بنا رہا تھا جس میں اس نے جمعے یا ہفتے کو منتقل ہونا تھا۔
مدعی مقدمہ نے بتایا کہ میرا بھانجا اسلام آباد کے مقامی اخبار میں بطور سب ایڈیٹر کے فرائض سرانجام دے رہا تھا، مقتول صحافی کی تدفین ضلع چکوال کی یونین کونسل ملیال مغلاں میں کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: 68 فیصد پاکستانی صحافی انٹرنیٹ پر خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، رپورٹ
حساس ترین علاقے میں صحافی کی ٹارگٹ کلنگ پر تمام صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا، صحافتی تنظیموں کا کہنا تھا کہ حساس ترین علاقے میں صحافی کو با آسانی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر ملزمان فرار ہو گئے اور پولیس ابھی تک تفتیش میں کوئی پیش رفت نہ حاصل کر سکی۔
صحافیوں نے وزیر اعلی پنجاب سے واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا جبکہ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کے چیف، ریجنل پولیس آفیسر اور سٹی پولیس آفیسر بھی ملزمان کی جلد گرفتاری کے لیے اقدامات کریں۔