پاکستان

’پاکستان کی 98 فیصد خواتین کو طبی و تعلیمی سہولیات میسر نہیں‘

دیہی علاقوں کی پشتون خواتین اور لڑکیاں اپنے طبی مسائل سے متعلق فیصلے کا حق رکھنے سے بھی محروم ہیں، اقوام متحدہ

کراچی: پاکستان میں خواتین کو دستیاب طبی اور تعلیم کے وسائل سے متعلق اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دیہی علاقوں کی مجموعی طورپر 98.8 فیصد خواتین تعلیمی مراکز جانے سے قاصر جبکہ دیہی پشتون آبادی سے تعلق رکھنے والی خواتین تعلیم سے بالکل محروم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دیہی علاقوں کی پشتون خواتین کو اپنے طبی مسائل سے متعلق فیصلے کا حق رکھنے سے بھی محروم ہیں۔

یہ پڑھیں: 'خواتین کو ہراساں کرنے کا بل تعلیمی اداروں پر قابل اطلاق نہیں'

سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ (ایس ڈی جیز) گول 2030 کے تحت جاری رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ طے شدہ اہداف میں شامل خواتین کو دستیاب تعلیمی اور طبی سہولیات سے متعلق حکومت کتنے اقدامات اٹھا رہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ‘پاکستان ان چار ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں 18 سے 49 سال تک کی 40 لاکھ 90 ہزار خواتین کو چار ایس ڈی جیز کے متعین کردہ انڈیکیٹرز سے محرومی کا سامنا ہے‘۔

ایس ڈی جیز کے 10 میں سے 9 انڈیکیٹرز سے واضح ہوتا ہے کہ انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والی 20 فیصد خواتین اور لڑکیاں دیہی علاقوں سے ہیں جبکہ اتنی ہی فیصد تعداد شہری علاقوں سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تعلیم یافتہ خواتین سے ترقی یافتہ معیشت

صوبہ سندھ کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کو دیگر صوبوں اور علاقوں کے مقابلے میں انتہائی غذائی قلت کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ متعدل علاقوں میں ملازمت کے مواقع 53.3 فیصد ریکارڈ کیے گئے جبکہ حیرت انگیز طور پر دیہی علاقوں میں اس کی شرح 86.8 فیصد ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق 15 سے 49 سالہ خواتین اور لڑکیوں کی 48.1 فیصد تعداد کو اپنے طبی مسائل پر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف 1.3 فیصد ہے جبکہ شہری علاقوں اس اختیار کی شرح 52.5 سے ریکارڈ کی گئی۔

لسانی بنیادوں پر کی جانے والی تقسیم میں اعداد وشمار کچھ یوں کہتے ہیں کہ پشتون اور سندھی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کو بلترتیب 65.2 فیصد اور 62.5 فیصد جبکہ سرائیکی، پنجابی اور اردو بولنے والی خواتین کو بلترتیب 44.0، 40.4 اور 31.9 اپنے طبی مسائل سے متعلق فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: عصمت: تعلیم یافتہ خواتین کی دنیا

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ خواتین اور لڑکیوں کو لسانی، دولت اور علاقائی بنیادیوں پر تفریق کا سامنا ہے بعض جگہ پر دولت اور علاقے سے زیادہ لسانیت کی وجہ سے طبی امور پر فیصلے کی اجازت نہیں۔

رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ چائلڈ اینڈ جینڈر سے متعلق سسٹین ایبل گول 2030 کے حصول کے لیے سستی، معیاری اور قابل رسائی تعلیم ایک بہتر حکمت عملی ہو گی۔


یہ خبر 15 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی