پاکستان

صدر زرداری کی مدت صدارت تک سزائے موت موخر

جب آصف علی زرداری صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے، اس وقت تک سزائے موت کے کسی بھی قیدی کی رحم کی اپیل مسترد نہیں کی جائے گی۔

اسلام آباد: صدر آصف علی زرداری کی مدت صدارت ختم ہونے میں تقریباً دو ماہ باقی ہیں اور جب تک وہ اس عہدے پر فائز رہیں گے، اس وقت تک سزائے موت کے کسی بھی قیدی کی رحم کی اپیل مسترد نہیں کی جائے گی۔

پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت میں کسی بھی مجرم کو سزائے موت نہیں دی گئی جبکہ اس دوران 2008 میں حکام نے صرف ایک فوجی کا کورٹ مارشل کیا۔

یاد رہے کہ 2008 میں ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا جس کے تحت سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا تاہم 30 جون کو اس کی مدت ختم ہو گئی ہے اور مسلم لیگ کی حکومت نے اس حکم نامے میں توسیع نہیں کی۔

انسانی حقوق کے اداروں نے نواز حکومت کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی کے عمل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

صدر کے انتہائی قریبی ذرائع نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ صدر آٹھ ستمبر کو اپنی آئینی مدت ختم ہونے تک اس معاملے کو طول دیتے رہیں گے جبکہ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر کسی بھی ملزم کی رحم کی اپیل مسترد نہیں کریں گے۔

موجودہ حالات میں صدر کے لیے مجرموں کی سزا میں عمل درآمد پر عمل کرانے کے لیے حکومتی دباؤ سے بچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہو گا کیونکہ پالیسی اور رمضان المبارک کے احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی مجرم کو سزائے موت نہیں دی جائے گی اور رمضان کے خاتمے کے ساتھ ہی صدر کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے میں صرف ایک ماہ باقی ہو گا۔

صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ صدر زرداری وفاقی حکومت کی جانب سے کسی بھی قیدی کو سزائے موت دینے کے حوالے سے سمری پر دستخط کو باآسانی التوا کا شکار کر سکتے ہیں۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اس بات ی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر وفاقی حکومت کی جانب سے بھیجی گئی کسی بھی سمری یا تجویز پر فوری طور پر دستخط کرنے کے پابند نہیں ہیں، وہ اس حوالے سے اپنا وقت لیں گے اور میرے خیال میں یہ کسی تنازع کا سبب نہیں بنے گا۔

پیر کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مشیرعالم نے حکومت کو کہا تھا کہ وہ ان مجرموں کی سزاؤں پر عمل کرے جن کی رحم کی اپیل مسترد ہو چکی ہے، انہوں نے کہا کہ لوگوں کلے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ پر اعتماد کے لیے سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد ضروری ہے۔

حکومت کی جانب سے اس حوالے سے پالیسی میں تبدیلی سے ملک بھر میں ایک گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں نے حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری جیسے ملزمان کو پھانسی کی سزا دینا ضروری ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ جیلوں میں بھی اس وقت بہت سے خطرناک شدت پسند موجود ہیں جنہیں عدالت پھانسی کی سزا دے چکی ہے لیکن فی الحال ان کی سزا پر عمل درآمد کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔

سن 2008 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت سزائے موت کے کسی بھی قیدی کی سزا پر عمل درآمد نہیں کرے گی۔

اس بیان کے باعث جب کبھی بھی وفاقی حکومت نے قیدیوں کو سزا دینے کے حوالے سے کوئی تجویز یا سمری بھیجی، صدر زرداری کو اسی بنیاد پر تجاویز کو التوا میں ڈالنے کا موقع ملا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی حکومت نے سزائے موت کے چالیس قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد کی سمری ارسال کی لیکن وزیر اعظم کے اس پالیسی بیان کے باعث اس تجویز کو نظر انداز کر دیا گیا۔

فرحت اللہ بابر نے انکشاف کیا کہ صدر کو صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے رحم کی اپیلیں مسترد کرنے کے لیے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں تاہم صدر نے پالیسی کے باعث ان میں سے کسی بھی اپیل کو مسترد نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ آٹھ ستمبر کے بعد مسلم لیگ کا اپنا صدر ہو گا اور اس کے بعد انہیں مجرموں کو سزا پر عمل درآمد کی مکمل آزادی ہو گی۔

صدارتی ترجمان نے ڈان ڈاٹ کام کو مزید بتایا کہ اس حوالے سے صدر زرداری وزیر اعظم سے بھی جلد ملاقات کر کے بات کریں گے۔