سپریم کورٹ کا پولیس کی کارکردگی پر اطمینان، زینب قتل ازخود نوٹس نمٹا دی
سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس کی تفتیش سے متعلق انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس کیپٹن (ر) عارف نواز کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ازخود نوٹس کو نمٹا دیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں زینب قتل کیس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں آئی جی پنجاب نے زینب قتل کیس کی تفتیش سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس کا چیف جسٹس نے جائزہ لیا۔
آئی جی پنجاب نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ مقدمے کا چالان انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں جمع کروایا جاچکا ہے۔
مزید پڑھیں: زینب قتل ازخود نوٹس: شاہد مسعود کو جے آئی ٹی کے سامنے ثبوت پیش کرنے کا حکم
بعدِ ازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے زینب قتل کیس ازخود نوٹس نمٹا دیا۔
ملزم کو چالان کی نقول فراہم کردی گئی
قبلِ ازیں قصور میں کم سن زینب کے قتل کے ملزم عمران کے خلاف کوٹ لکھپت جیل میں قائم انسدادِ دہشت گردی عدالت میں سماعت ہوئی۔
پراسیکیوٹر جنرل عبدالرؤف وٹو نے سماعت کے آغاز پر ملزم عمران کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا، اور بعدِ ازاں چالان اور استغاثہ کے گواہان کے بیانات کی نقول ملزم عمران کو فراہم کردی گئیں۔
عدالت نے سماعت روز مرہ کی بنیاد پر کرنے کی ہدایت کی جبکہ 12 فروری کو ملزم پر فردِ جرم عائد ہونے کا امکان ہے.
خیال رہے کہ قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے قتل پر پہلے لاہور ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا، تاہم اس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ پر نوٹس لیا اور 15 جنوری کو کیس کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سمیت جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 16 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے زینب قتل کیس کی سماعت کو روکنے کی ہدایت کی تھی اور تمام تحقیقاتی ٹیموں کو سپریم کورٹ میں طلب کرلیا تھا۔
21 جنوری کو سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس میں تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹے کی مہلت دے دی تھی۔
25 جنوری کو سپریم کورٹ میں زینب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملزم عمران کی سیکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت کردی تھی۔
قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل:مرکزی ملزم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں، اسٹیٹ بینک
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
مزید پڑھیں: ’شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکاء نے ہمارے آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
خیال رہے کہ 23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز (24 جنوری کو) ملزم عمران کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جسے عدالت نے 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔