پاکستان

آج وزیراعظم کاعہدہ مفلوج ہوچکا ہے، نواز شریف

صوابدیدی اختیار کے لمبے ہاتھ انتظامیہ کو بے بس کرنے کے بعد اب مقننہ تک بھی پہنچ چکے ہیں، سابق وزیراعظم

سابق وزیراعظم نواز شریف نے ریاستی اداروں کے درمیان توازن برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہوگیا ہے اور وکلا کو آئین کے آرٹیکل 184-3 کے تحت عدلیہ کے صوابدیدی دائرے کا جائزہ لینا ہوگا۔

کراچی میں وکلا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے عدلیہ اور مقننہ کے درمیان توازن کی جانب توجہ دلایا جبکہ عدالتی نظام کے حوالے سے بھی تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ مشرف کو اس وقت کے چیف جسٹس نے تین سال کے لیے چیر پھاڑ کی اجازت دی لیکن آج تک کسی نے خبر نہیں لی مگر کسی منتخب جمہوری نمائندے کو کوئی نرمی یا رعایت نہیں دی گئی جبکہ آمر ہر نرمی، رعایت اور نوازش کا مستحق ٹھہرا۔

نواز شریف نے کہا کہ ایک پہلو یہ ہے کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات ہماری عدلیہ کو بڑے عزیز رہے ہیں اور اس نوعیت کے مقدمات کے فیصلے بڑے جلدی کیے گئے جبکہ عوام کے لاکھوں مقدمات اب بھی التوا کا شکار ہیں۔

وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 184-3 کے تحت عدلیہ کا صوابدیدی اختیار اس دائرے میں ہے جو آئین بنانے والوں کے پیش نظر تھا یا یہ صوابدید اپنی حدوں سے بہت آگے نکل کر کئی آئینی اور قانونی تقاضوں سے تجاوز کرگئی ہے اس کا جائزہ وکلا کو لینا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب صوابدید کا دائرہ لامحدود ہوجائے تو سچے اور کھرے انصاف کا دائرہ نا انصافی کی حد تک سمٹ جاتا ہے۔

انھوں نے وکلا سے کہا کہ آپ کو یہ بھی جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ریاست کے تین بنیادی ستون (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) کے درمیان وہ توازن رہ گیا ہے جس کا تقاضا آئین کرتا ہے اس کا جائزہ اپ کو تحمل اور کسی بھی تعصب اور جانبداری سے آزاد ہو کر لینا ہوگا۔

نواز شریف نے کہا کہ آج وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہوچکا ہے اور میں چار مرتبہ وزیراعظم رہنے کے بعد یہ بات کررہا ہوں ، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ یہ حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ وہ کسی انتظامی عہدیدار تک کا تقرر بھی نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ روز مرہ کے عمومی معاملات سے لے کر پالیسی اقدامات تک انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور حال ہی میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا یہ اختیار بھی صلب کرلیا گیا کہ وہ کسی اہم معاملے پر جوڈیشل کمیشن قائم کرے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر ریاست کا کوئی ایک ستون دوسرے ستون کے ہاتھ پاؤں باندھ کر بے بس اور مفلوج کردے تو ریاست کا نظام کیسے چلے گا اور آئین کی بالادستی کیسے قائم ہوگی۔

انھوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ستون دوسرے ستون پر اپنی صوابدید کے کوڑے برسانے لگے تو کیا دستوری نظام برقرار رہ سکے گا۔

سابق وزیرعظم نے کہا کہ صوابدیدی اختیار کے لمبے ہاتھ انتظامیہ کو بے بس کرنے کے بعد اب مقننہ تک بھی پہنچ چکے ہیں اور اس وقت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا ایک قانون عدالتی بنچ کے سامنے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں کہ سکتا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری تو کیا انتظامیہ کے بعد مقننہ بھی قانون سازی کے آئینی اور بنیادی کردار سے محروم کردی جائے گی کیا پارلیمنٹ کے ہر اقدام کے لیے عدالت کی توثیق ضروری قرار پائے گی۔

انھوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کسی بھی مہذب ریاست کے لیے بے حد ضروری ہے اور میں نے عدلیہ کی آزادی کے لیے عملی جدوجہد کی ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ عدالت کا احترام بھی ضروری ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے لیکن عدلیہ کو بھی اپنے مرتبے اور وقار کا لحاظ کرتے ہوئے دوسروں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب نے کہا کہ ہم وزیراعظم کوبھی طلب کرسکتے ہیں اور وزیراعظم کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ خالی ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ کسی اور کی نہیں، میری نہیں بلکہ وزیراعظم کے منصب کی توہین تھی اور میں نے بڑی ادب سے اس وقت کے چیف جسٹس کی توجہ اس طرف دلائی لیکن انھوں نے وزیراعظم کے خط کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاناما کیس میں میرے لیے گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے الفاظ استعمال کیے گئے اور میرے نظر ثانی اپیل کے فیصلے کی زبان کے لب ولہجے کو بھی آپ دیکھ سکتے ہیں جبکہ عمران خان کے مقدمے پر میرے حوالے سے 7 صفحے لکھے گئے۔

’ آمروں اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت کو مضبوط نہیں ہونے دیا’

قبل ازیں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے صدر نواز شریف نے کہا کہ آمروں اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت کو مضبوط نہیں ہونے دیا، ہر دور میں کسی نہ کسی طرح ایسی کوششیں ہوتی رہیں کہ مقبول جماعتوں کے مقابلوں میں کٹھ پتلی جماعتیں کھڑی کی گئیں۔

کراچی میں 'جمہوریت کا مستقبل' کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے جمہوریت کی آب و ہوا میں گرد و غبار آج بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاسی تاریخ جمہوریت پر پے درپے حملوں سے بھری ہوئی ہے اور آج بھی سیاسی مطلع پوری طرح صاف نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف احتساب عدالت میں پیش، فرد جرم عائد نہ ہو سکی

شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو مرضی کا کھلونا بنانے کی روایت جاری ہے اور جمہوریت جب بھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی اس پر کلہاڑی چلا دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ نظریہ ضرورت اور کامیاب انقلاب کی تھیوری ہماری عدلیہ کے ایک حصے کو ضرور پسند آئیں جبکہ ماضی میں عدلیہ کے ایک حصے نے اسی نظریے کا سہارا لے کر مارشل لاء کو درست قرار دیا۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ہمیشہ نظریہ ضرورت کا سہارا لیا گیا اور افسوس اس بات کا ہے کہ عدلیہ کے ایک حصے نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں نظریہ ضرورت اور کامیاب انقلاب کی تھیوری ہر مرتبہ آمر کا ساتھ دیتی رہی اور جمہوریت کی گردن اڑاتی رہی اور اسی وجہ سے پاکستان اور آئین ہار گیا اور نظریہ ضرورت جیت گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہیں سلام کرنے کو جی چاہتا ہے اور میں جسٹس (ر) مرحوم سعید الزماں صدیقی کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پی سی او کے حوالے سے محمود خان اچکزئی کی بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کیونکہ اس ملک کی تباہی کی وجہ پی سی او بنا ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ہم پارلیمان میں بیٹھ کر اس حوالے سے بھی کام کریں گے کیونکہ اگر ملک کی سمت درست کرنی ہے تو سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ’خلافِ توقع فیصلے کے بعد عدلیہ پر الزامات کی بوچھاڑ نہ کی جائے‘

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ماضی میں کئی وزرا اعظم کو مدت سے پہلے فارغ کردیا گیا اور قوم جانتی ہے کہ میرے ساتھ کیا تماشا ہوا جبکہ بلوچستان میں کیا ہوا سب کے سامنے ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہاں کے وزیر اعلیٰ کو کیسے ہٹایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے 70 سال میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا جبکہ آمروں نے 10 سے 12 سال حکومت کی اور اس دور میں 30 سال سے زائد ملک میں آمروں کا دور رہا۔

انہوں نے کہا کہ آمروں نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا لیکن میں اس تلخ تاریخ کے باوجود یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔

خیال رہے کہ نواز شریف یکم فروری کو دو روزہ دورے پر کراچی پہنچے تھے جہاں گورنر سندھ محمد زبیر نے ان کا استقبال کیا۔

وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر عابد شیر علی اور سینیٹر آصف کرمانی بھی سابق وزیراعظم کے ہمراہ کراچی پہنچے تھے۔

اس موقع پر میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے کہا تھا کہ اگر انہیں 2018 میں ایک مرتبہ پھر موقع ملا تو کراچی کو لاہور سے بھی آگے لے جائیں گے۔