پاکستان

’ماورائے عدالت قتل‘ ازخود نوٹس کیس: راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

چیف جسٹس نے معطل ایس ایس پی کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا، کیس کی سماعت 27 جنوری کو کراچی رجسٹری میں ہوگی۔
|

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات کیس کے دوران کراچی کے معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کا تذکرہ ہوا تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس کے لیے مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس نے میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس کا نوٹس لیا جس میں بتایا گیا تھا کہ گذشتہ ہفتے کراچی کے علاقہ شاہ لطیف ٹاؤن میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کے مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاکت کے الزام میں ملیر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کو معطل کردیا گیا جبکہ وہ واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سامنے بھی پیش نہیں ہورہے۔

رپورٹس میں مقتول کے ایک قریبی عزیز کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ پولیس نے نقیب اللہ کو 2 جنوری 2018 کو اس کی دکان سے حراست میں لیا تھا اور بعد ازاں ایک جعلی مقابلے میں اسے قتل کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے ابتدا میں کیس کی سماعت بدھ کے روز (24 جنوری 2018) کے لیے مقرر کی تھی تاہم راؤ انوار کی جانب سے بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس نے وقفے کے بعد کیس کی سماعت کی اور نئی ہدایات جاری کردیں۔

نئی ہدایات کے مطابق کیس کی سماعت کراچی رجسٹری میں 27 جنوری 2018 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کرے گا جس میں آئی جی سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ، تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کو پیش ہونے کا حکم دے دیا گیا جبکہ راؤ انوار کو بھی ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔

اس کے علاوہ چیف جسٹس نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ معلوم ہوا ہے کہ راؤ انوار کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہو رہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے نقیب اللہ کے ’ماورائے عدالت قتل‘ کا نوٹس لے لیا

میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ماضی میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت گری تو اس کی ایک وجہ ماورائے عدالت قتل بھی تھے۔

اس موقع پر وکیل طارق اسد نے عدالت سے کہا تھا کہ راؤ انوار کے معاملے پر از خود نوٹس لیا گیا لیکن پورے ملک میں ایسے مقابلے ہورہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام اقدامات بنیادی انسانی حقوق کے لیے کئے جبکہ سپریم کورٹ اپنا دائرہ اختیار خود طے کرے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی تقریم کبھی کم نہیں ہونے دیں گے اور وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گھڑے مردے مت کھودیں اگر یہ ادارہ نہ رہا تو آپ کے بچوں کو انصاف کون دے گا۔

اس سے قبل اسلام آباد کے بینظیر انٹر نیشنل ایئرپورٹ کے ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار گزشتہ شب اسلام آباد سے ای کے 615 کی پرواز سے دبئی فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، تاہم امیگریشن کاؤنٹر پر ایف آئی اے کے عملے نے بیرون ملک جانے سے روک دیا اور ان کی بیرون ملک فرار کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

جس پر معطل ایس ایس پی راؤ انوار نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے ان کے ملک سے فرار ہونے کی خبریں بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا پر دبئی فرار سے متعلق غلط خبریں چلائی جارہی ہیں اور ’میں بالکل ٹھیک ہوں‘۔

سابق ایس ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ روز بھی ان کے گھر پر پولیس کے چھاپے کی خبر چلائی گئی تھی تو غلط ہے اور ’آج میرے دبئی فرار ہونے کی کوشش کو ناکام بنانے کی غلط خبر چلائی جارہی ہے‘۔

تاہم ذرائع کے مطابق ایف آئی اے عملے نے راؤ انوار کو یہ کہہ کر دبئی جانے سے روک دیا کہ ان کے خلاف نقیب اللہ محسود کے قتل کی تفتیش جاری ہے لہٰذا جب تک یہ تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتی وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے۔

یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک فرار کی خبریں بے بنیاد ہیں، راؤ انوار

ایئرپورٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کو امیگریشن آرڈر 506 کے تحت روکا گیا، تاہم انہیں کسی ادارے نے حراست میں نہیں لیا جبکہ اس وقت تک معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ابھی تک ای سی ایل میں شامل نہیں تھا۔

خیال رہے کہ 19 جنوری 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس سے 7 روز میں واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

مزید پڑھیں: نقیب محسود کیس میں کچھ نہیں ہوگا، وائس چیئرپرسن ایچ آر سی پی

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

راؤ انوار نے پولیس کی انکوائری کمیٹی کا بائیکاٹ کردیا

بعد ازاں سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے معاملے کی تفتیش کرنے والی انکوائری ٹیم کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ٹیم کے دو اراکین ان کے خلاف 'ذاتی طور جانب داری' کر رہے ہیں۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انھوں یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ انکوائری ٹیم میں موجود دو اراکین مبینہ طور پر ان کے خلاف 'ذاتی طور پرجانب دار' ہیں اور انھیں واقعے کے حوالے سے پوچھے بغیرکیس میں ملوث کردیا ہے۔

معطل راؤ انوار آئی جی سندھ کے سامنے پیش نہیں ہوئے

اس کے بعد گزشتہ روز ایس ایس پی راؤ انوار کو کراچی میں آئی جی سندھ اور انسانی حقوق کے کمیشن کے سامنے سینٹرل پولیس آفس میں طلب کیا گیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے۔

اس بارے میں ایس ایس پی انویسٹیگیشن شرقی 2 کا کہنا تھا کہ ہمارا راؤ انوار سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ان کا انتظار کیا گیا لیکن کوئی افسر اب تک پیش نہیں ہوا، جس پر محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے راؤ انوار کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ تحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ تعاون کریں بصورت دیگر ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔