روپے کی قدر میں کمی سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ
کراچی: پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کے بعد ملک بھر میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں جوڑیا بازار کے ہول سیل تاجروں کا کہنا ہے ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کے بعد برآمد شدہ کھانے کی اشیاء پر زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا اور چائے، کافی، دودھ پاؤڈر، چوکلیٹ اور چیز سے لیکر دالوں، مصالحوں اور اچاروں تک بڑی تعداد میں درآمد شدہ اشیاء 5 سے 10 فیصد مہنگی ہوئی۔
مارکیٹ سروے پر مبنی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق دسمبر کے دوسرے ہفتے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریباً 5 فیصد کمی کے باعث رٹیل مارکیٹوں میں مقامی طور پر پیدا ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔
ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کے دوران 53 ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اوسطاً ہفتے کے دوران 0.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کی مداخلت کے بعد روپے کی قدر مستحکم
خیال کیا جارہا ہے کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں جاری اضافے سے صارفین کے افراط زر میں بھی اضافے کا امکان ہے لیکن اس بات کی تصدیق آئندہ ماہ جنوری میں ہی کی جاسکے گی۔
ایک معروف کوکنگ آئل اور گھی مل کے اہم مالیاتی افسر کا کہنا تھا کہ کھانے کے مقامی تیل کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام تیل اور سویا بین آئل کی قیمت میں اضافے کے بعد ہمارے خام مال کی قیمتوں میں بھی 5 سے 10 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کے باعث جنوری کے لیے خام تیل اور سویا بین آئل کے معاہدے پر اس سے زیادہ لاگت آئے گی۔
اسی طرح کی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے چائے مرکب کرنے والی کمپنی کے حکام نے جنوری میں قیمتوں میں اضافے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی مرکزی بین کی جانب سے شرح سود ہٹانے کے بعد بنگلہ دیش اور سری لنکا میں چائے کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ اگر اس حقیقت کو سمجھا جائے کہ سستہ روپیہ درآمدی قیمت پر اثر ڈالے گا تو اس سے نہ صرف ایکسچینج ریٹ بلکہ کرائے میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ بین الاقومی انشورنس اور شپنگ فیس بھی بڑھ جائے گی۔
دالوں کے ایک بڑے درآمد کندہ انیس مجید کے مطابق درآمد شدہ سامان کی ملک میں پہنچنے والے دن کی مناسبت سے ادائیگی کی جاتی ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی کے باعث درآمدی قیمت خودکار طور پر بڑھ جاتی ہے لیکن ہم فوری طور پر ریٹیلرز کو دینے کے لیے اس میں اضافہ نہیں کرسکتے۔
ریٹیلرز کا دعویٰ ہے کہ کراچی کی نیم ہول سیل مارکیٹوں کے دکانداروں نے پہلے ہی مونگ، مسور، ماش کی دالوں کے ساتھ ساتھ چھولے، سیاہ چنے اور بیسن و دیگر اشیاء کی قیمتوں میں 10 فیصد اور اس سے زائد کا اضافہ کردیا ہے۔
دوسری جانب اہم غذائی فصلوں جیسے گندم، چاول، چینی اور مکئی کی فراہمی کافی ہے اور بین الاقوامی منڈیوں میں ان کی مقامی قیمتیں پہلے ہی زیادہ ہیں جبکہ کھانے کی پیداواری صنعت اس حوالے سے بہتر کام کررہی ہے، جس کے بعد ماہرین کو غذائی قلت نظر نہیں آرہی۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے بات چیت میں پاکستان روپے کی قدر میں کمی پر رضامندی
اس کے علاوہ دودھ اور ڈیری مصنوعات کی قیمتیں مستحکم ہیں کیونکہ موسمِ سرما میں دودھ کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے اور پیداواری کمپنیاں عموماً گرمیوں میں طلب بڑھنے پر قیمتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔
تاہم اس تمام تر صورتحال میں کچھ اور عوامل بھی ہیں جیسے ریٹیلرز کی جانب سے بغیر روک ٹوک کے منافع اور افراطِ زر کی توقعات شامل ہیں۔
اس بارے میں کراچی کے جوڑیا بازار کے ایک مشہور تاجر محمد عرفان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی متوقع تھی اور 5 جولائی کے بعد سے تاجروں نے اس حقیقت کا اندازہ لگا لیا تھا، جس کے بعد مارکیٹ پرسکون رہی۔
واضح رہے کہ 5 جولائی کو سینٹرل بینک کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی کی گئی تھی لیکن وزیر خزانہ کی جانب سے مارکیٹ میں مداخلت کے باعث اسے واپس لینے پر مجبور کردیا تھا۔