پنجاب میں 2 ہزار سے زائد اسکولوں کی عمارتیں خطرناک قرار
لاہور: صوبائی حکومت کے محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے پنجاب بھر کے مختلف اضلاع میں موجود سرکاری اسکولوں میں سے 2 ہزار سے زائد درسگاہوں کی عمارتوں کو ان کی خستہ حالی کے باعث خطرناک قرار دے دیا گیا۔
محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے جنوبی علاقوں میں 7 سو 74 اسکول خطرناک قرار دی گئی عمارتوں میں قائم ہیں۔
جنوبی پنجاب کے جن اسکولوں کو خطرناک قرار دیا گیا ہے ان میں سے 31 بہاولپور میں، 81 بہاولنگر میں جبکہ 87 رحیم یار خان میں میں قائم ہیں۔
علاوہ ازیں ڈیرہ غازی خان 149، لیہ میں 68، مظفر گڑھ میں 47 جبکہ راجن پور میں 58 اسکول ایسے جہاں طالبِ علم خطرناک قرار دی گئی عمارت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پرائیوٹ اسکول ہے تو اچھا ہی ہوگا! اس غلط فہمی کو دور کرلیجیے
محکمہ اسکول ایجوکیشن کے مطابق فیصل آباد میں 154، چنیوٹ میں 10، جھنگ میں 129 جبکہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 84 اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت کو خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔
خطرناک قرار دیئے گئے ان اسکولوں کی تعداد گوجرانوالہ میں 74، گجرات میں 8، حافظ آباد میں 41، منڈی بہاؤ الدین میں 78، نارووال میں 15 جبکہ سیالکوٹ میں 81 ہیں۔
پاکستان کے مستقبل لاہور میں 109، قصور میں 50، شیخوپورہ میں 25 جبکہ ننکانہ صاحب کے 67 خطرناک قرار دیئے گئے اسکولوں کی عمارات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تعلیمی معیار میں پنجاب تیسرے،خیبرپختونخوا پانچویں نمبر پر ہے،رپورٹ
محکمہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خطرناک قرار دی گئی عمارت میں قائم اسکولوں ملتان کے 109، خانیوال کے 65، لودھراں کے 55 جبکہ وہاڑی کے 24 اسکول بھی شامل ہیں۔
اس طرح راولپنڈی کے 95، اٹک کے 94، چکوال کے 49 جبکہ جہلم کے 39 اسکول ایسے ہیں جو خطرناک قرار دی گئی عمارتوں میں قائم ہیں۔
ساہیوال کے 68، پاکپتن کے 67، اوکاڑہ کے 92، سرگودھا کے 44، میانوالی کے 43، بھکر کے 81 جبکہ خوشاب کے 90 اسکولوں کے طلبہ بھی خطرناک قرار دی گئی عمارتوں میں بیٹھ کر اپنے مستقل کو سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔