بیت المقدس پر سلامتی کونسل کی قرارداد امریکا نے ویٹو کردی
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو واپس لینے کے لیے پیش کی گئی قرار داد کو امریکا نے 'بے عزتی' سے تعبیر کرتے ہوئے ویٹو کردیا جبکہ سلامتی کونسل کے دیگر 14 ارکین کے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
امریکی سفیر نکی ہیلے نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بیت المقدس سے متعلق پیش کی گئی قرار داد کو ویٹو کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے فیصلے کے خلاف پیش کی گئی قرار داد ایک 'بے عزتی' ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سلامتی کونسل میں جو کچھ آج ہم نے دیکھا ہے وہ ایک بے عزتی ہے جس کو بھلایا نہیں جائے گا'۔
امریکی سفیر نے سلامتی کونسل کی قرار داد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اقوام متحدہ اسرائیل-فلسطین مسئلے پر جو کہہ رہی ہے وہ بہتری سے زیادہ نقصان دہ ہے'۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان
اقوام متحدہ کے اجلاس میں 193 ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی جبکہ برطانیہ سمیت سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے امریکی صدرکے فیصلے کے خلاف ووٹ دیا اور واحد امریکا نے فیصلے کو ویٹو کیا۔
خیال رہے کہ امریکا کے علاوہ برطانیہ، چین، روس اور فرانس کے پاس سلامتی کونسل کی کسی بھی قرار داد کو ویٹو کرنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ قرار داد کو پیش کرنے کے لیے 9 اراکین کی رضامندی لازم ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ میں بیت المقدس کے حوالے سے امریکی فیصلے خلاف قرار داد مصر کی جانب سے پیش کی گئی۔
دوسری جانب فلسطینی حکام نے اقوام متحدہ کی قرار داد کو ویٹو کرنے کے اقدام کو 'ناقابل قبول' قرار دیتے ہوئے امریکی رویے پر شدید تنقید کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:القدس کے ساتھ آزاد فلسطین اوآئی سی کا واحد روڈ میپ ہونا چاہیے، وزیراعظم
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 دسمبر کو مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکا کے سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
امریکی صدر کے فیصلے کے بعد نہ صرف فلسطین بلکہ تمام مسلمان ممالک سمیت عالمی برادری کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی اور آج اس معاملے پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی اقدام کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے اس فیصلے کے خلاف فوری ردعمل دیتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس طلب کیا تھا جہاں پر رکن ممالک نے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے امریکا سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔