خواتین کھیتوں سے سبزیاں اکھٹی کررہی ہیں—فوٹو:وائٹ اسٹار
یہ گرین بیلٹ زیادہ قیمتی ہے کیونکہ یہاں شہری علاقوں کی طرح سبز مقامات کو ختم کرتی ہوئی تعمیرات نہیں ہیں۔ جب کیرتھر رینج میں بارش ہوتی ہے تو پانی ملیر کے میدانی علاقوں میں جمع ہو جاتا ہے، جس سے پانی کے ذخائر اور چھوٹے ڈیم بھر جاتے ہیں، اور موسمی ندیاں ایک بار پھر جاری ہوجاتی ہیں۔ یہاں کی زمین یا تو بارانی ہے یا اسے ٹیوب ویل کے ذریعے پورا سال آباد رکھا جاتا ہے۔
ایک بڑے شہری مرکز سے قریب ہونے کے باوجود یہاں ایک جابرانہ جاگیردارانہ نظام یہاں قائم ہے۔
پیپلز پارٹی کے جامشورو سے ایم این اے سردار ملک اسد سکندر اس علاقے کے سب سے زیادہ طاقت ور جاگیر دار ہیں، جو کوہستان کے طور پر جانا جاتا ہے جو (جامشورو اور حیدرآباد اضلاع کے ساتھ ساتھ کراچی کے غربی اور ملیر اضلاع کے حصوں پر مشتمل ہے)۔
برڑو قبیلے کے سردار ملک اسد سکندر کاچھیلو، پالاری اور گوندر کے ذیلی قبیلوں کے بھی سربراہ ہیں، اور ایسا اثر و رسوخ رکھتے ہیں جس میں بغاوت کی کوئی گنجائش نہیں۔ شیشوں سے جڑی سفید سندھی ٹوپی پہنے ایک دیہاتی کہتے ہیں: "امید ہے کہ آپ ہمارے نام شائع نہیں کریں گے، وہ سردار لوگ ہیں، وہ ہمیں تباہ کردیں گے۔"
سردار سکندر باقاعدگی سے ملیر کے مختلف اضلاع میں شکار مہمات پر آئے ہوئے عرب شاہی مہمانوں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سماجی طور پر بااثر لوگوں کی میزبانی کرتے ہیں۔
ڈی سی کے اور بحریہ ٹاؤن کراچی کا پھیلنا سردار سکندر کی طاقت اور اثر و رسوخ میں کمی کا باعث نہیں۔ مگر وہ چاہے جتنے بھی روابط رکھتے ہوں، انہیں ڈی ایچ اے کے عظیم الشان نام اور بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے سندھ کے وی وی آئی پیز سے کاروباری تعلقات کو مدِنظر رکھتے ہوئے احتیاط سے چلنا ہوگا۔
مگر اسی وقت ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور ان کے معاملے میں یہ قیمت ہاؤسنگ پراجیکٹس میں ہزاروں پلاٹس کی 'فائلیں' ہیں۔ دوسرے سیاسی فوائد اس کے علاوہ۔
قیاس آرائیوں میں اضافہ ڈی ایچ اے کراچی نے ابتدا میں ڈی سی کے کے لیے 11 ہزار 640 ایکڑ اراضی اور بعد میں 8000 ایکڑ کے لیے درخواست دی تھی جس کا مقصد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کی بحالی تھا۔ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ 2001 سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 6 ہزار فوجی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔
ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر علی کے مطابق شہداء کے لواحقین کو شہید کے رینک کے مطابق معاوضہ دیا جاتا ہے، مگر اس ضابطے میں استثنیٰ بھی ہو سکتا ہے۔
بریگیڈیئر علی کا کہنا تھا کہ منصوبے میں 5 مرلے (100 گز) سے لے کر ایک ایکڑ (4 ہزار 840 مربع گز) کے درمیان پلاٹ موجود ہیں۔
تاہم یہاں ایک منطقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں شہداء کے نام پر اتنی بڑی زمین کی ضرورت پیش آرہی ہے؟
بلدیاتی حکومت کے ایک سابق سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ "شہداء کے ورثا کو ان کے گھروں کے نزدیک بھی پلاٹ فراہم کیے جاسکتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں شہداء کے نام پر کاروباری سرگرمیوں کی مثال نہیں ملتی۔ یہ جرم سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کراچی والوں کے ساتھ کیا گیا۔"
شہریوں کو رہائش فراہم کرنا عالمی سطح پر ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ گھروں کی تعمیر بے جا منافع حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ رہائش کے لیے ہونی چاہیے۔
تجارتی وجوہات کی بنا پر زمین کے اس استحصال کی وجہ سے زمین کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گھر تعمیر کرنا ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوجاتا ہے۔
کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر نے دعویٰ کیا کہ "یہ نام نہاد ہاؤسنگ اسکیمز روز بروز اس پیسے سے بھی محروم کر رہی ہیں جن سے کراچی میں کم از کم نچلے درجے سے لیکر درمیانی درجے کے گھروں کی تعمیر کی جا سکتی تھی۔"
سپر ہائی وے کے دونوں جانب 11 ہزار 640 ایکڑ اور 8 ہزار ایکڑ پر مشتمل ڈی سی کے کا کل 19 ہزار 640 ایکڑ کا رقبہ حجم میں نہ صرف کراچی میں ڈی ایچ اے کے ابتدائی 8 فیز (8 ہزار 852 ایکڑ) سے دگنا ہے بلکہ یہ کراچی کے ضلع وسطی (19 ہزار ایکڑ) اور لاہور کے اولڈ سٹی ایریا (16 ہزار ایکڑ) سے بھی بڑا ہے۔
ماہرین کے مطابق طاقتور ڈیولپرز کی جانب سے کراچی کے محفوظ اور زرخیز مقامات پر ڈی سی کے کی طرح کی ترقیاتی اسکیمز جائیداد کے حقوق، ماحولیاتی قوانین اور شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزیاں ہیں۔
آرکیٹیکٹ اور شہری منصوبہ ساز عارف حسن کا کہنا تھا کہ "جنوبی ایشیاء سے باہر کسی بھی شہر میں انہیں اس طرح کے ترقیاتی منصوبے بنانے کی اجازت نہ ملتی، بلکہ ان سے کہا جاتا کہ وہ اپنے زیر التوا منصوبوں کو مکمل کریں۔"
ڈی ایچ اے کراچی کے آنے کے 37 سال بعد بھی ڈی ایچ اے فیز 8 اور ڈی ایچ اے 7 ایکسٹینشن میں 3000 ایکڑ سے زیادہ رقبہ خالی ہے، جبکہ اس کی تعمیر کے لیے ڈی ایچ اے 4 مرتبہ مالکان سے ڈیولپمنٹ چارجز وصول کرچکا ہے۔
ایک سابق سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ ناقابلِ یقین بات ہے کہ ایک ڈیولپر، جس کی گزشتہ 4 دہائیوں سے تعمیری اعتبار سے صلاحیت انتہائی خراب رہی ہے، اسے ایسی اسکیم کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے، جو اس کی صلاحیت سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
بریگیڑیئر علی نے کہا کہ ’زمین کی قیمتوں پر سٹے بازی ہمارے اختیار میں نہیں، نجی سرمایہ کار یہاں آتے ہیں گھروں کی تعمیر کرتے ہیں بعد میں ان میں رہائش کرنے کے بجائے انہیں فروخت کردیتے ہیں، تاہم یہ مارکیٹ فورسز ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘ مگر وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس منصوبے کی مکمل آبادکاری میں ابھی بھی کئی دہائیاں لگیں گی۔
ایک شفاف اندازِ فکر ڈی ایچ اے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر، جو ایک سول انجینئر ہیں، کا کہنا تھا کہ ’ہم مستحکم ترقی چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس 4 یا 5 فعال چیک ڈیم ہیں جبکہ مزید 2 یا 3 پر کام جاری ہے تاکہ زیر زمین پانی بھرتا رہے۔ جبکہ پروجیکٹ میں کسی بھی قدرتی نالے کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔
اس منصوبے کو 'گرین اور اسمارٹ' سٹی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور اس منصوبے میں ایک اعشاریہ 1 میگا واٹ کا سولر پروجیکٹ بھی لگایا گیا ہے۔
جب ان سے پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے نے اس معاملے میں سندھ حکومت سے رابطہ کیا ہے جس میں کراچی کو پانی فراہم کرنے والے منصوبے ’کے 4‘ سے معقول حصہ مختص کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
’کے 4‘ منصوبہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کا گزشتہ 20 سال سے زیر التواء منصوبہ ہے جو کراچی کی آبادی کی 65 کروڑ گیلن پانی یومیہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تعمیر کیا جارہا ہے۔
2003 میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے کراچی کو 26 کروڑ گیلن یومیہ مختص کرنے پر اتفاق کیا تھا، جو کہ اب تک صرف اتفاق ہی ہے۔
کے فور منصوبے کی فزیبلٹی اور ڈیزائن عثمانی اینڈ کمپنی لمیٹڈ نے تیار کیا تھا۔ 25 ارب روپے سے زیادہ لاگت والا یہ منصوبہ بعدِ ازاں عوامی ٹینڈر کی قانونی شرط کے بغیر فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو سونپ دیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عثمانی اینڈ کمپنی لمیٹڈ ہی ایک یونانی کمپنی ڈوزیاڈس ایسوسی ایٹس کی شراکت داری سے ڈی سی کے کے ڈیزائنرز ہیں جبکہ سابق منیجنگ ڈائریکٹر واٹر بورڈ نے بتایا کہ ’کے 4‘ منصوبے کی تعمیر کرنے والی ٹیم کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس منصوبے کا راستہ ڈی سی کے اور بحریہ ٹاؤن کراچی (بی ٹی کے) سے ہوتے ہوئے گزاریں۔
اس چیز نے کے ڈبلیو ایس بی کو مسائل سے دوچار کردیا کیوں کہ اس منصوبے سے کراچی کے علاوہ مزید کسی رہائشی آبادی کو کنکشن فراہم کرنے کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے گئے تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کشش ثقل کے تحت پانی کراچی میں دریائے سندھ سے بغیر پمپنگ کے آ سکتا ہے، مگر اس منصوبے میں پانی کو کششِ ثقل کے برخلاف بھیجنے کے لیے زبردست پمپنگ کی ضرورت ہوگی۔
رواں برس مارچ کے مہینے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ضلع جامشورو کے ایک ریونیو افسر کے خلاف کیس دائر کیا گیا ہے۔
اے ڈی سی ون جاوید سومرو اور اے سی ارشاد کملانی نے 731 ایکڑ سرکاری اراضی — جسے ریکارڈ میں نجی زمین دکھایا گیا تھا — کی ڈی ایچ اے کراچی کو فروخت یا ٹرانسفر سے متعلق مقدے میں ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ بورڈ آف ریونیو میں جب کسی کو یہ احساس ہوا کہ سپرہائی وے کے دونوں اطراف میں کوئی قبولی (موروثی/نجی ملکیت میں موجود) زمین موجود نہیں ہے، اور ایک فراڈ کیا جا رہا ہے، تو اس نے معاملے کی شکایت نیب کو کی۔
جیسی امید کی جارہی تھی بالکل ویسا ہی ہوا اور نیب کی تحقیقات آغاز کے فوراً بعد روک دی گئیں، اور جب نیب ترجمان نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا، تو ایسے میں نیب ذرائع نے دعویٰ نے کہا کہ ’آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم پر اس کیس کے حوالے سے کتنا دباؤ ہے‘۔
مقامی افراد کا الزام ہے کہ ملک اسد سکندر، جو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سندھ حکومت میں وی وی آئی پیز کے ساتھ تعلقات کے لیے مشہور ہیں، نے ضلع جامشورو میں ڈی ایچ اے کراچی کو ڈی سی کے کے سیکٹر 17 کی جعلسازی پر مبنی فروخت و منتقلی کا انتظام کیا تھا تاکہ نومبر 2012 سے سپریم کورٹ کی جانب سے سرکاری زمین کی نجی اور سرکاری اداروں کو الاٹمنٹ اور لیز پر عائد پابندی کا توڑ کیا جا سکے۔
نیب کے کیس نمبر NABK2015111019865 کی دستاویزات کے مطابق 9 افراد اس معاملے میں زیرِ تفتیش ہیں جن میں 3 سرکاری افسران اور 5 عام افراد ہیں جبکہ دستاویزات میں رقم "50 کروڑ روپے سے زائد" لکھی گئی ہے۔
اس کیس میں نیب تحقیقات سے ایک اقتباس کے مطابق "انکوائری سے ثابت ہوا کہ ریونیو افسران/ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی جانب سے جعلسازی کی گئی جس کے تحت سرکاری زمین کو دھوکہ دہی کے ذریعے نجی زمین دکھایا گیا۔"
تحقیقات میں یہ بھی لکھا ہے کہ "ڈی ایچ اے نے طلبی نوٹس جاری ہونے کے باوجود ایک بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔"
نیب کی ایک اور متعلقہ دستاویز کے مطابق "ڈی ایچ اے کراچی کے قبضے میں موجود تقریباً 731 ایکڑ زمین لینڈ فراڈ کی وجہ سے اب بھی بورڈ آف ریوینیو، گورنمنٹ آف سندھ کی ملکیت ہے، اور ڈی ایچ اے کراچی کا اس پر کوئی قانونی حق نہیں ہے۔"
دائرہ کار پر سوالات ڈی سی کے کے دائرہ کار کا حساس معاملہ بھی واضح نہیں ہوسکا ہے، جیسا کہ ڈیولپمنٹ کے معاملات کو ایک میونسپل اتھارٹی کی جانب سے دیکھا جانا چاہیے، جو متعلقہ قوانین کو لاگو کرنے کی ذمہ دار ہے۔
ڈی ایچ اے کراچی کے فیز ون سے فیز 8 ایک دوسرے سے متصل ہیں اور وہ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ (سی سی بی) کے میونسپل دائرہ کار میں آتے ہیں تاہم ڈی سی کے، جو ڈی ایچ اے فیز 9 کے طور پر بھی شمار کیا جاتا ہے، سی سی بی کی حدود سے 40 کلو میٹر دور ہے اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے میونسپل دائرہ کار میں آتا ہے۔
ڈی ایچ اے کراچی کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو فراہم کیا جانے والا ڈی ایچ اے سٹی کا نقشہ
ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے کراچی نے اس معاملے میں طریقہ کار کی بے قاعدگیوں کو تسلیم کیا اور کہا کہ ہم نے سندھ حکومت کے ساتھ ایک عمل شروع کیا ہے، جس میں ڈی ایچ اے کراچی، ڈی سی کے کو میونسپل سروسز فراہم کرے گا، ان کے خیال میں کئی ایسے طریقہ کار پر غور کیا جاسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ان معاملات میں اس بات کے زیادہ امکانات موجود ہیں کہ ڈی سی کے کو سی سی بی کا علیحدہ حصہ شمار کیا جائے تاکہ میونسپل کنٹرول حاصل کیا جاسکے تاہم کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کی شق 2 میں کنٹونمنٹ کی تعریف اس معاملے کو ضروری تحفظ فراہم نہیں کرتی۔
اس کے مطابق: "مرکزی حکومت سرکاری گزیٹ میں جاری نوٹیفیکیشن ک ے مطابق کسی بھی جگہ یا جگہوں کو، جس کے نزدیک مسلح افواج یا پاکستان کی فضائیہ کی تنصیبات ہوں، اگر ان جگہوں کی افواج کو ضرورت ہو تو انہیں کینٹونمنٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔"
ایک ریٹائر سرکاری اہلکار نے پوچھا کہ کنٹونمنٹ کی تعریف کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں کے نام پر کیسے زمین دی جاسکتی ہے؟
اس کے علاوہ اس طرح کا اقدام اکتوبر 2007 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی، سپریم کورٹ نے انسانی حقوق کے مقدمے (2006/6844) میں حکم دیا تھا کہ وزارت دفاع کے حکم نامے کے ذریعے شہری علاقوں کو کنٹونمنٹ بورڈ سے خارج کردیا جائے گا۔
اس فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ ایسے علاقوں کی نشاندہی کے لیے ڈائریکٹر ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ کراچی، ای ڈی او ریونیو پر مشتمل کمیٹی سروے کرے گی اور ایک ماہ میں رپورٹ جمع کرائے گی۔
سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی کمیٹی کا اجلاس 4 دسمبر 2007 کو منعقد ہوا تھا، اجلاس کا ایجنڈا ابتدائی طور پر زیر بحث نہیں آیا تھا، اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے گی اور اس وقت تک عمل درآمد کو روکا جائے۔
تاہم نظر ثانی کی اپیل کو عدم پیروی کے باعث خارج کردیا گیا اور سپریم کورٹ کے حکم پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
یہ کہا جارہا ہے کہ کلفٹن کنٹونمنٹ کا شہری علاقہ 9 ہزار 953 ایکٹر پر مشتمل ہے جبکہ آپریشنل (فوج) کے استعمال میں صرف 58 ایکڑ ہے، یہاں تک کہ کراچی کے 6 کنٹونمنٹس کا آپریشنل علاقہ 17 ہزار 516 ایکڑ تک ہے جو تمام ڈی سی کے کے مقابلے میں 2000 ایکڑ کم ہے، جن میں سے کوئی حصہ فوج کے استعمال کے لیے نامزد نہیں۔
دریں اثناء 6 کنٹونمنٹس میں شہری علاقہ 26 ہزار 95 ایکڑ تک ہے، جو ڈی سی کے کے لیے مختص زمین سے تقریبا 6 ہزار ایکڑ کم ہے۔
اس سے قبل قومی تعمیرِ نو بیورو نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت میں پیش کی گئی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ کراچی میں فوج زیر استعمال زمین کے علاوہ دیگر کو کنٹونمنٹ سے خارج کیا جائے اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی (سی ڈی جی کے) کے سپرد کیا جائے تاہم اس تجویز پر اتفاق نہیں کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق ایم ڈی اے دعویٰ کرتا ہے کہ ڈی سی کے کے سیکٹر 1 سے 16 تک کے لیے ترقیاتی اخراجات کی مد میں ایک ارب 35 کروڑ سے زائد مختص کیے گئے ہیں جبکہ ڈی ایچ اے کراچی نے کبھی اپنی اسکیم کا لے آؤٹ پلان جمع نہیں کرایا اور نہ ہی اتھارٹی سے فروخت کرنے یا تعمیر کرنے کے لیے لازمی اجازت یا این او سی حاصل کی۔
ایم ڈی اے انتظامیہ نے اصرار کیا کہ انہوں نے متعدد خطوط ڈی ایچ اے کراچی کو ارسال کیے لیکن کسی کا جواب نہیں دیا گیا۔
7 اکتوبر 2017 کی نیوز رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے ضلع جامشورو میں 8 ہزار 500 ایکڑ اراضی شہداء کے اہل خانہ کے لیے 15 ہزار روپے فی ایکڑ پر فوج کو منتقل کی تھی۔
علاوہ ازیں ڈی ایچ اے سٹی ڈیولپمنٹ کے نام پر اراضی کے مقامی مالکان کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ رپورٹ 18 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
ثبوت
سندھ حکومت کی جانب سے ملیر کے 43 دیھوں کی زمین کے نرخوں کے لیے جاری نوٹیفکیشن