پاکستان

نیب ریفرنس: اسحٰق ڈار کے خلاف مزید 5 گواہان طلب

عدالت نے اسحٰق ڈار کے ضامن کی منقولہ جائیداد قرق کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 18 دسمبر تک جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
|

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس میں ایک اور گواہ نے اپنا بیان قلمبند کرادیا جبکہ عدالت نے مزید 5 گواہان کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں ضابطہ فوجداری کی شق 512 کے تحت استغاثہ کے گواہ عظیم خان کا بیان ریکارڈ کیا گیا جبکہ گواہ مسعود غنی اور عبد الرحمٰن گوندل کو ریکارڈ سمیت طلب کیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل قوسین فیصل کی عدم حاضری پر عدالت نے مسعود غنی اور عبد الرحمٰن گوندل کو ریکارڈ پر جرح کے لیے آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: معلوم ہوتا ہے اسحٰق ڈار کو دل کی بیماری نہیں،احتساب عدالت کافیصلہ

نیب پروسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں آئندہ سماعت پر 9 گواہان کو پیش کرنے کی اجازت دی جائے تاہم عدالت نے صرف 5 گواہان کی طلبی کے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن واصف حسین، ڈپٹی ڈائریکٹر کامرس قمر زمان، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے سابق ڈائریکٹر قابوس عزیز، ڈائریکٹر قومی اسمبلی شیر دل خان، اور نجی بینک کے منیجر فیصل شہزاد شامل ہیں۔

استغاثہ کے گواہ عظیم خان نے اسحق ڈار اور ان کے خاندان کے 3 بینک اکاؤنٹ کی تفصیل عدالت میں پیش کر دی تاہم انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب کی جانب سے اگست 2017 میں اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹ کی تفصیل مانگی گئی تھی۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار کا پہلا اکاؤنٹ اکتوبر 2001 سے اکتوبر 2012 کے درمیان فعال رہا، دوسرا اکاؤنٹ اگست 2012 سے دسمبر 2016 کے درمیان فعال رہا جبکہ تیسرا اکاؤنٹ جنوری 2017 سے اگست 2017 کے درمیان فعال رہا۔

عظیم خان نے اسحٰق ڈار کے تمام اکاؤنٹس کی کمپیوٹر سے حاصل کردہ تفصیلات، ہجویری ہولڈنگ کمپنی کے اکاؤنٹ کی تفصیلات اور اسحٰق ڈار اور ان کی اہلیہ کے نام پر لاکر کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی اسحٰق ڈار کا نام ’ای سی ایل‘ میں ڈالنے کی سفارش

بعدِ ازاں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کی منقولہ جائیداد قرق کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 18 دسمبر تک جمع کرانے کا حکم دے دیا جبکہ سماعت بھی 18 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

اس سے قبل 11 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دے کر ان کے ضمانتی مچلکوں کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

احتساب عدالت کی جانب سے اسحٰق ڈار کو عدالت میں پیش ہونے یا تین روز میں 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر مقررہ وقت میں ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے تو ضامن کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔

4 دسمبر کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روکنے کی استدعا کی تھی۔

عدالت میں پیش کردہ میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے اسحٰق ڈار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک معلوم ہو جائے گا کہ ان کے موکل کو کیا بیماری ہے۔

29 نومبر کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں بھی اسحٰق ڈار پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ ان کے وکیل نے 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط نہ کرنے کے معاملے پر دلائل دیئے تھے۔

24 نومبر 2017 کو اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی نے عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے 3 ہفتوں تک کی مہلت دی جائے۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو مفرور قرار دے دیا

یاد رہے کہ 21 نومبر 2017 کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے لیے اسحٰق ڈار کی اٹارنی اور نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی اور انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل نے اپنے موکل کی 16 نومبر کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تھی جس پر وکیلِ استغاثہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گزشتہ رپورٹ اور موجودہ رپورٹ میں تضاد موجود ہے۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے ناقابلِ وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 8 نومبر کو ہونے والی سماعت میں بھی عدم پیشی پر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پروسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: اسحٰق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔