پاکستان

پاکستان کی بیت المقدس کے حوالے سے ممکنہ امریکی فیصلے کی مخالفت

پاکستانی عوام اور حکومت فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کرتے ہیں اور امریکا کے مجوزہ فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں،وزیراعظم ہاؤس
| |

پاکستان نے فلسطینی عوام سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے امریکا کی جانب سے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے مجوزہ فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کر دیا۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'امریکا کی جانب سے اس طرح کے اقدام سے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی صریح خلاف ورزی ہوگی'۔

بیت المقدس کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت خانے کی منتقلی کا فیصلہ 'مقدس شہر القدس الشریف کی قانونی اور تاریخی حیثیت کو تبدیل کردے گا'۔

قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب رہنماؤں کو آگاہ کیا تھا کہ وہ تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس (یروشلم) منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں:امریکا کا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا عندیہ

امریکی متنازع ممکنہ فیصلے کے حوالے سے وزیراعظم ہاؤس کا کہنا تھا کہ 'اس اقدام سے مسئلے پر دہائیوں سے موجود عالمی اتفاق رائے کو نقصان پہنچائے گا اور خطے میں پائیدار امن کے کسی بھی عمل کو ختم کرنے سمیت خطے کی سلامتی کو بھی زک پہنچائے گا'۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اور حکومت امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے حوالے سے خبروں کی پرزور مخالفت کرتے ہیں۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے جاری ہونے والے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'پاکستان اس معاملے پر او آئی سی کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے حتمی فیصلے کی توثیق کرتا ہے'۔

خیال رہے کہ او آئی سی نے رواں ہفتے کے آغاز میں ہی اپنے بیان میں کہا تھا کہ 57 رکن ممالک کو بیت المقدس میں سفارت خانے کی منتقلی یا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کی منظوری پر اس ریا ست سے تعلقات کو منقطع کر دینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کابیت المقدس پرمتنازع فیصلہ ہواتو تعلقات منقطع ہوں،او آئی سی

بیان میں کہا گیا تھا کہ 'اگر امریکا بیت المقدس (یروشلم) کو متنازع طور پر اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس اجلاس کے بعد فوری طور پر وزرا خارجہ سطح کا ایک اور اجلاس کی تجویز دی جائے گی'۔

او آئی سی کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے بیت المقدس کے حوالے سے ایسے کسی بھی فیصلے کو 'عرب اور مسلم اقوام پر حملہ' تصور کیا جائے گا۔

راجا ظفرالحق کا او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ

سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفرالحق نے امریکی صدر کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔

راجا ظفرالحق کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیلی انتظامیہ کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کے متوقع اعلان نے اسلامی ممالک کو مایوس کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلان سے انصاف اور امن کی امیدوں کا خون ہوگا اورکشیدگی بڑھے گی جو مشرق وسطیٰ سے باہر بھی دنیا کو متاثر کرے گی۔

مزید پڑھیں:'بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینا ناقابل قبول ہے'

راجا ظفرالحق نے معاملے پر گفت و شنید کے لیے اردن کی جانب سے طلب کیے گئے او آئی سی اور عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس کی طرح اسلامی کانفرنس کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل فلطسین کی غزہ پٹی کی حکمران جماعت حماس اور صدر محمود عباس دونوں کی جانب سے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سنگین نتائج کا اشارہ دیا تھا۔

حماس کی جانب سے عندیہ دیا گیا تھا کہ اگر ایسا فیصلہ سامنے آیا تو انتفاضہ کی تحریک کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:بیت المقدس سے متعلق اسرائیل کے خلاف قرار داد پر ووٹنگ

حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم اس طرح کے اقدام کے حوالے سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر بیت المقدس سے متعلق کوئی ظالمانہ فیصلہ اپنایا گیا تو فلسطینی عوام سے انتفاضہ بحال کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

بعد ازاں صدرمحمود عباس نے اپنے بیان میں اس فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافے کے طور پر قبول کرنا یا بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کے حوالے سے کوئی قدم سے 'خطے میں امن کے مستقبل کے لیے خطرات بڑھیں گی اور یہ ناقابل قبول ہے'۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’یروشلم‘ یا بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی یا دباؤ اور طاقت کے استعمال کو غیر قانونی قرار دینے اور اس سے گریز کرنے کے حوالے سے اسرائیل مخالف قرار داد پیش کی گئی تھی۔

یہ قرار داد ان رپورٹس کے بعد ہی پیش کی گئی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اس قرار داد کے حق میں سب سے زیادہ 151 ریاستوں نے ووٹ دیا جبکہ 6 ریاستوں امریکا، کینیڈا، مائیکرونیزیا کی وفاقی ریاستوں، اسرائیل، جزائر مارشل، ناورو نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

اس کے علاوہ 9 ریاستوں آسٹریلیا، کیمرون، وسطی جمہوری افریقہ، ہونڈراس، پاناما، پاپوا نیو گنی، پیراگوائے، جنوبی سوڈان اور ٹوگو نے قرارداد پر ووٹ دینے سے گریز کیا تھا۔