نیب ریفرنس: نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے جمع کرائی گئی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست عدالت نے منظور کرلی تاہم مریم نواز کی درخواست مسترد کردی گئی۔
خیال رہے کہ آج صبح 9 بجے ہونے والی سماعت میں نواز شریف کے وکیل کی جانب سے احتساب عدالت میں اپیل کی گئی تھی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے آج ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے متوقع فیصلے کے پیش نظر سماعت کی کارروائی کو موخر کردیا جائے۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے ایک بجے تک اپنی کارروائی کو موخر کردیا تھا تاہم نواز شریف ایک بجے مصروفیات کی بناء پر پیش نہیں ہوسکے تھے۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے اپنی کارروائی کا پھر سے آغاز کرتے ہوئے نیب استغاثہ کے 3 گواہان کے بیانات قلم بند کیے۔
اس موقع پر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی دوبارہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے سماعت کے دوران نواز شریف کو ایک ہفتے تک حاضری سے استثنیٰ دے دی تاہم مریم نواز کی استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی گئی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کو پہلے ہی حاضری سے استثنیٰ دی جاچکی ہے، جس کی مدت 15 نومبر سے 15دسمبر تک تھی.
خیال رہے کہ احتساب عدالت میں جاری العزیزیہ اسٹیل ملز، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت میں پیش ہونے کے لیے نوازشریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ نجی طیارے میں لاہور سے اسلام آباد پہنچے تھے۔
حسن اور حسین نواز اشتہاری قرار
علاوہ ازیں اسلام آباد کی احتساب عدالت شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کے دوران پیش نہ ہونے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دے دیا۔
نیب حکام نے نیب آرڈیننس کی سیکشن 512 کے تحت دونوں ملزمان کے خلاف شہادتیں ریکارڈ کرنے کے عمل کا آغاز کردیا۔
نیب نے احتساب عدالت کو بتایا کہ حسن نواز اور حسین نواز کی کوئی جائیداد نہیں ملی جبکہ بینک اکاونٹس اور شئیر پہلے ہی منجمد کیے جاچکے ہیں۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسزکی سماعت 5 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: شریف خاندان کی درخواست پر احتساب عدالت کی سماعت ملتوی
سابق وزیراعظم کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں اور اس کے اطراف سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ہفتوں کے اندر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، تاہم نیب نے 8 ستمبر کو عدالت میں ریفرنسز دائر کیے تھے۔
شریف خاندان ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت میں زیر سماعت تینوں ریفرنسز یکجا کرنے کی نواز شریف کی درخواست مسترد کردی۔
ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ، عزیزیہ ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں۔
درخواستوں پر بحث کے دوران نواز شریف کے وکیل نے دو ریفرنس یکجا کرنے کی صورت میں بھی مطمئن ہونے کی پیشکس کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نیب ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ان درخواستوں پر تیئیس نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے نواز شریف کی ایسی ہی درخواستوں پر احتساب عدالت کو معاملہ دوبارہ دیکھنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد احتساب عدالت نے نواز شریف کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔
تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔
بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔
کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔
عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد
ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔
نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔
عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔
22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔
28 نومبر کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر ریفرنسز کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے تک سماعت ملتوی کردی جائے، جسے منظور کرلیا گیا تھا۔