پاکستان

جسٹس شوکت صدیقی کیس: وزارت قانون کا جواب لیک ہونے پر اٹارنی جنرل کی تشویش

وزارت قانون کا جواب منظوری سے قبل میڈیا میں کیسے پہنچا؟ اٹارنی جنرل نے تحقیقات کی ہدایت کردی، رپورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی جانب سے ان کے خلاف کھلی عدالت میں ٹرائل کی درخواست پر وزارت قانون کی جانب سے دیئے گئے جواب کی منظوری اور سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے سے قبل میڈیا میں آنے کے معاملے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے تحقیقات کی ہدایات جاری کردیں۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اکاؤنٹننٹ جنرل کے دفتر سے وزارت قانون کو خط لکھا گیا جس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ پٹیشن کا مواد منظوری سے قبل میڈیا کے پاس کیسے پہنچا؟

خیال رہے کہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے جب اس پیش رفت کے حوالے سے سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے اس پر کسی بھی قسم کا رد عمل دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی جواب سپریم کورٹ میں جمع نہیں کرایا گیا جبکہ سپریم کورٹ کے دفتر نے بھی وزارت قانون کی جانب سے ایسے کسی جواب کے ملنے کی تردید کی تھی۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی نے خود کو اوپن ٹرائل کیلئے پیش کردیا

میڈیا کے سامنے آنے والے جواب میں وزارت قانون نے اٹارنی جنرل کے آفس کے ذریعے سپریم کورٹ سے گزارش کی تھی کہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے پروسیجر آف انکوائری 2005 کو غیر آئینی قرار دیا جائے اور کہا گیا تھا کہ ایس جے سی ججز کے خلاف اپنی کارروائیوں کو قائدے کے تحت چلائیں۔

یاد رہے کہ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ان کے خلاف ٹرائل کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کھلی عدالت میں پیش کی جانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف مبینہ طور پر قوائد کے خلاف جانے کے ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کھلی عدالت میں مقدمہ سننے کے حوالے سے اٹارنی جنرل کو ریفرنس کی کارروائی سے متعلق وجوہات پر مبنی جواب 2 ہفتوں میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد

واضح رہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ریفرنسز کے حوالے سے کھلی عدالت میں کارروائی کا مطالبہ کیا تھا، جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل مخدوم علی خان نے پٹیشن میں جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کے پروسیجر آف انکوائری 2005 کے پیراگراف 13 کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے جو ان کیمرہ کارروائیوں کے حوالے سے تھا۔

پٹیشن میں بتایا گیا کہ اس سیکشن کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 4، 10 (اے)، 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہورہی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ٹرائل کا سامنا کرنے والے کی آزادی کا خیال نہیں کیا جاتا۔

مزید پڑھیں: جوڈیشل کونسل کی کھلی عدالت میں کارروائی،معاملہ چیف جسٹس کے حوالے

درخواست گزار جج کا کہنا تھا کہ آئینی اداروں کی آزادی کے لیے بولنے کی آزادی اور آزاد میڈیا سے بڑھ کر کوئی حفاظت نہیں اور کسی ادارے کے معاملات کو چھپا کر آپ اسے تحفظ ںہیں دے سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ درخواست گزار کے پاس کچھ بھی چھپانے کے لیے نہیں ہے اور اگر کارروائی کھلی عدالت میں کی جائے گی تو ان کے وقار کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔


یہ خبر 28 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی