دنیا

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم، نسلی بنیادوں پر غیر انسانی سلوک قرار

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ پیش کردی جس میں میانمار میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ طویل عرصے سے جاری امتیازی سلوک کو نسلی بنیادوں پر غیر انسانی سلوک قرار دے دیا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ( اے پی ) کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری رپورٹ میں سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ جو لوگ فوج کے کریک ڈاؤن کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جب وہ واپس اپنے علاقوں میں آئیں گے تو انہیں کس صورت حال کا سامنا کرنا ہوگا۔

رواں سال اگست سے میانمار میں فوج کی جانب سے جاری ’کلیئرنس آپریشن‘ سے محفوظ رہنے کے لیے 6 لاکھ 20 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان، میانمار کی راکھائن ریاست سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش منتقل ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی نسل کشی کی مہم کے لیے شروع کی گئی، تشدد کی کارروائیوں، دھمکیوں اور گھروں کو جلا کر روہنگیا مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی کمیونٹی چھوڑ دیں۔

مزید پڑھیں: میانمار :’فوج مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف‘

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ روہنگیا کے خلاف تشدد کو روکنے اور ان کی گھروں کو واپسی عالمی برادری کی اولین ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ بنگلہ دیشی سرحد پر پناہ گزیر کیمپوں میں رہ رہے ہیں جبکہ ڈھاکہ کے حکام نے بھی میانمار پر زور دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو محفوظ واپسی کی اجازت دے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دو سال میں کیے جانے والے انٹرویوز اور شواہد کو اپنی رپورٹ میں شامل کیا ہے، رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں کا میانمار میں رہنے کے حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے امتیازی سلوک کے ایسے برے نظام کا سامنا ہے جس سے غیر انسانی سلوک بڑھ رہا ہے اور یہ انسانیت کے خلاف جرم کی بین الاقوامی تعریف کے مترادف ہے۔

بدھ مت ریاست میں بنیادی طور پر روہنگیا مسلمان صدیوں سے ریاستی حمایت یافتہ امتیازی سلوک کا سامنا کررہے ہیں، وہ آزادانہ گھوم نہیں سکتے، عبادت نہیں کرسکتے، استاد یا ڈاکٹر کی حیثیت سے کام نہیں کرسکتے، انہیں طبی سہولیات، خوراک یا تعلیم تک رسائی حاصل نہیں۔

ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں یہ بدترین امتیازی سلوک ہے۔

36 سالہ عبدالقدیر نے انسانی حقوق کے گروپ کو بتایا کہ وہ علاج کے لیے سٹوے ہسپتال جانا چاہتے تھے لیکن یہ ان کے لیے ممنوع تھا، ہسپتال کے اسٹاف نے انہیں بتایا کہ وہ وہاں نہیں جائیں یہ ان کی اپنی حفاظت کے لیے ہے، اسٹاف نے کہا کہ انہیں علاج کے لیے بنگلہ دیش جانا چاہیے، جس کے لیے بہت رقم خرچ ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار،روہنگیا مہاجرین کی واپسی پر تیار ہے،بنگلہ دیشی وزیر کا دعویٰ

اس سے قبل بھی روہنگیا مسلمان ظلم و ستم کے باعث یہاں سے منتقل ہوچکے ہیں، 1978 میں لاکھوں افراد نے یہاں سے نقل مکانی کی تاہم بعد ازاں 1990 میں پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث بہت سے لوگ واپس آئے۔

2012 میں کمیونٹی تشدد کے باعث بھی ایک لاکھ افراد کو کشتیوں کے ذریعے نکالا گیا جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار کے قریب افراد راکھائن کے دارالحکومت سٹ وے کے کیمپوں میں پھنس گئے تھے۔

گزشتہ سال کے آخر تک میانمار میں تقریباً 10 لاکھ روہنگیا مسلمان موجود تھے، اسی سال اکتوبر میں روہنگیا کے عسکریت پسند گروپ نے پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کرکے متعدد افسران کو قتل کردیا تھا جبکہ بدلے میں فوج کی جانب سے 87 ہزار روہنگیا کو باہر نکال دیا گیا تھا۔

رواں سال 25 اگست کو عسکریت پسندوں کے حملے میں سیکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکار ہلاک ہوئے، اس کے جواب میں فوج کا رد عمل کافی سخت اور وسیع تھا۔

اس وقت پناہ گزینوں کی تعداد کم ہے تاہم ابھی بھی لوگ ہر تین ماہ بعد میانمار کی سرحد کو عبور کر رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے خبردار کیا کہ راکھائن کی اقتصادی ترقی امتیازی سلوک کا آلہ کار نہیں ہونی چاہیے۔

میانمار نے غریب ریاست کی ترقی کے لیے بین الاقوامی ماہرین کے پینل کی سفارشات کی حمایت کی ہے لیکن اسی رپورٹ میں میانمار پر زور دیا گیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنائے۔

میانمار کی حکومت نے حال ہی میں ہونے والے 51 ممالک کے وزرا خارجہ اور نمائندوں کے اجلاس میں سیاسی اور اقتصادی تعاون کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا لیکن پناہ گزینوں کے بحران سے متعلق بات نہیں کی۔

مزید پڑھیں: ’میانمار حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کو واپس بلانا چاہیے‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سینئر ڈائریکٹر برائے تحقیق اننا نیستات کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو خواب غفلت سے جاگنے اور حقیقت کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے کہ راکھائن میں کئی برسوں سے کیا ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی کا عمل معاملات کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتا لیکن یہ مزید امتیازی سلوک جاری رکھنے سے نہیں ہوسکتا، عالمی برادری اور مخصوص ڈونرز کو اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ ان کی مصروفیت ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہ کردے۔