پاکستان

سپریم کورٹ نے اسلام آباد دھرنے کا نوٹس لے لیا

آرٹیکل 14 عوام کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے اس کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
| |

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر جاری مذہبی جماعتوں کے دھرنے کا نوٹس لے لیا۔

سپریم کورٹ میں ایک کیس کی جاری سماعت کے دوران وکلا کے مقررہ وقت پر نہ پہنچنے ہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کے آرٹیکل 14 عوام کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے کہ 'اس پر عمل درآمد کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟'

انہوں نے اس حوالے سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد، آئی جی پنجاب سے 23 نومبر تک رپورٹ طلب کرلی جبکہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ سے بھی تفصیلی رپورٹ مانگ لی گئی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا ختم کروانے کیلئے عدالت کی 23 نومبر تک کی مہلت

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے 23 نومبر کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے لیے اہم ذمہ داری

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سیکریٹری ایڈووکیٹ ارباب عالم عباسی، جوائنٹ سیکریٹری ایڈووکیٹ آصف سمیت دیگر عہدیدار عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سیکریٹری ایڈووکیٹ ارباب عالم عباسی نے عدالت کو بتایا کہ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے ہم جو حالات دیکھ رہے ہیں اس میں صورتحال کچھ اور ہی ہے۔

تاہم جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان عہدیداران کو دھرنے والوں کو عدالتی فیصلے سے آگاہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعدِ ازاں میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ارباب عالم عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد ہمارا مظاہرین کے پاس جانا بنتا نہیں ہے اور ہمیں سپریم کورٹ سے یہی حکم ملا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاء کو نہ ہٹانے پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو عدالت میں طلب کیا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے گذشتہ روز احتساب عدالت میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ضرور کارروائی کی جائے گی تاہم عدالت سے دھرنا ختم کرانے کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی جائے۔

تاہم عدالت نے فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کو 23 نومبر تک کا وقت دے دیا تھا جبکہ سیکرٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس اور چیف کمشنر اسلام آباد کو شوکاز نوٹسز جاری کردیئے تھے۔

دھرنا ختم کرانے کے لیے فوج کو طلب کرنے کی تجویز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں مذہبی جماعت کا دھرنا ختم کرانے کے لیے عسکری قیادت سے رابطے کی تجویز پیش کردی۔

میڈیا نمائندوں سے غر رسمی بات چیت کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار نواز شریف اور ان کی جماعت ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صورتحال کے پیش نظر فوج کو بلانا اور ان سے بات کرنا حکومت کا آئینی اختیار ہے۔

قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ 2017 کا ترمیمی بل منظور کروانے کی پوری کوشش کریں گے تاہم حکومت نے اس معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیا تو ہمارے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ حکمران برے ہوسکتے ہیں لیکن پارلیمنٹ بری نہیں ہے اور اگر ایک نااہل شخص پارٹی چلائے تو نتائج بہتر نہیں آتے۔

اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کا مظاہرہ

خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر گذشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت حلف نامے کی بحالی کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم منظور

دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 17 نومبر کو ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر موجود مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔

اس حکم نامے سے ایک روز قبل (16 نومبر کو) اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین میں ختم بنوت کی شق کو مبینہ طور پر تبدیل کرنے والے ذمہ داروں کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو اپنا دھرنا فوری ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی دھرنے کو ختم کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے دی گئی مہلت کا وقت ختم ہونے کے بعد فیض آباد انٹرچینج کی صورت حال میں کافی تناؤ پیدا ہوا جبکہ وزیرداخلہ احسن اقبال کے حکم پر آپریشن کو 24 گھنٹوں کے لیے مؤخر کردیا گیا تھا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور تشدد کے نتیجے میں ایک ایف سی اہلکار زخمی ہوگیا تھا جس کا مقدمہ دھرنے میں موجود قائدین کے خلاف درج کیا گیا جس کے بعد ان پر درج مقدمات کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔

اسلام آباد پولیس نے دھرنے میں شرکا کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے فیض آباد انٹرچینج پر پولیس کے ساتھ جھڑپ کرنے والے 8 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

مظاہرین اور حکومت کے ناکام مذاکرات

واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے علماء اور مشائخ کی موجود گی میں مظاہرہ کرنے والی تنظیموں کے قائدین سے مذاکرات کی کوششیں کی اور اس کے لیے مذاکرات کے 5 دور منعقد کیے گئے اور تمام ہی مرتبہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے۔

رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور مذہبی اسکالر مفتی منیب الرحمٰن نے حکومت اور اسلام آباد میں دھرنا دینے والی مذہبی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ معاملے کا پُر امن حل تلاش کریں، جس کی وجہ سے دارالحکومت کے معاملات 2 ہفتوں سے انتہائی خراب صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔